Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی اقدامات کے باوجود پاکستان میں ڈالر کی بلیک مارکیٹ میں تیزی کیوں؟

گزشتہ برس نومبر میں بینکوں کے ذریعے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں 14 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکومت پاکستان کی مبینہ غفلت، لاپروائی یا نااہلی، پاکستان میں ڈالر کے سرکاری ریٹ میں اضافے کے باوجود گرے مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار عروج پر ہے۔
انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں گرے مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 25 سے 30 روپے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ غیرقانونی طریقے سے ڈالر کی خرید و فروخت کا کاروبار پروان چڑھتا جارہا ہے۔
فاریکس ڈیلرز کا کہنا ہے کہ گرے مارکیٹ کا وجود کئی دہائیوں سے ہے، موجودہ معاشی صورتحال میں حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں، ان سے قانونی طریقوں سے ڈالر کی خرید و فروخت کرنے والوں کو نقصان اور گرے مارکیٹ والوں کو فائدہ ہوا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق ملک میں مسلسل ڈالر کی طلب و رسد میں فرق اور ڈالر کی قلت نے گرے مارکیٹ کو اوپن اور انٹربینک مارکیٹ سے زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔
’حکومت کی غلط پالیسوں نے گرے مارکیٹ میں کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔‘

گرے مارکیٹ کیا ہے؟

ظفر پراچہ نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہ گرے مارکیٹ سے مراد بلیک مارکیٹ ہی ہے۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ سے ہٹ کر کرنسی کی خریداری جس میں کسی بھی قسم کی کاغذی کارروائی نہیں ہوتی وہ گرے مارکیٹ کہلاتی ہے۔
 ان دنوں پاکستان میں گرے مارکیٹ بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جمعرات کو کاروباری اوقات کے ابتدائی حصے میں انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 269 روپے ہے اور اوپن مارکیٹ میں 270 روپے ہے جبکہ گرے مارکیٹ میں یہ قیمت 297 روپے چل رہی ہے۔‘

گرے مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے؟

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ گرے مارکیٹ مختلف انداز میں کام کرتی ہے۔
’ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ایجنٹ کے ذریعے سے سرمایہ کار مارکیٹ سے ڈالر سرکاری ریٹ پر خریدتے ہیں، پھر ڈالر کو ہولڈ کر لیا جاتا ہے اور مارکیٹ میں مصنوعی بحران کی سی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔‘
’جب مارکیٹ میں ڈالر نایاب ہوجاتا ہے تو ریٹ کھولا جاتا ہے۔ یہ ریٹ کہیں بھی ظاہر نہیں کیا جاتا لیکن ڈالر کی خرید و فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔‘
’دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیرون ممالک سے پیسے بھیجنے والوں کو مارکیٹ کے مقابلے میں 20 سے 30 روپے اضافی ریٹ دیے جاتے ہیں، بنا کسی دستاویزاتی عمل کے کرنسی خرید لی جاتی ہے اور پھر اپنے من مانے ریٹ پر فروخت کی جاتی ہے۔‘

کیا گرے مارکیٹ کے بڑھنے کی وجہ حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں؟

سینئر صحافی اور تجریہ کار خرم حسین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کو قانونی طریقےسے ملک میں پیسے بھیجنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ بیرون ممالک میں مقیم افراد کو اچھے ریٹ اور سہولت ملے گی تو ملک میں قانونی طریقے سے پیسے پاکستان زیادہ منتقل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹرز کو بھی سہولت دینی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں ڈالر کی سپلائی بہتر ہو گی تو خود بہ خود گرے مارکیٹ کم ہوتی جائے گی۔‘
معاشی ماہر عبدالعظیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ڈالر کی مسلسل قلت کی وجہ سے روپیہ اپنی قدر کھو رہا ہے۔‘
’ایسی صورتحال میں حکومت ایسے اقدمات کر رہی ہے جس سے قانونی طریقوں سے ڈالر سمیت دیگر کرنسی کی دین کرنے والوں مشکلات کا سامنا ہے اور بیرون ممالک میں مقیم افراد سمیت مقامی سطح پر کام کرنے والے قانونی طریقے کے مقابلے میں غیر قانونی طریقے سے کرنسی کی خرید و فروخت کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
دوسری جانب ظفر پراچہ گرے مارکیٹ بڑھنے کا ذمہ داری حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مرکزی بینک کی جانب سے امپورٹرز اور  ایکسپورٹرز کو کہا جاتا ہے کہ ایل سی کے لیے خود ڈالر کا انتظام کریں۔ جب سرکاری سطح پر ڈالر کی سپلائی ہی نہیں ہو گی تو کیسے ڈالر لائے جائیں گے؟‘
’اس کے علاوہ ملک سے ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں سے ڈالر خریدا جاتا ہے اور پشاور میں فروخت کر دیا جاتا ہے جہاں سے باآسانی ڈالر اچھے ریٹ پر افغانستان سمگل ہو جاتا ہے۔‘
یاد رہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے پیسوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں بینکوں کے ذریعے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں 14 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ دسمبر میں اس میں 3.2 فیصد کی مزید کمی ہوئی ہے جس کے بعد ترسیلاتِ زر میں سالانہ بنیادوں پر کمی 19 فیصد ہو گئی۔
یہی نہیں بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ ’مالی سال 2023 کی پہلی ششماہی میں بیرون ملک سے ترسیلات زر کی مد میں آنے والے 14.1 ارب ڈالر گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں آنے والے فارن ایکسچینج سے11.1 فیصد کم ہیں۔‘

شیئر: