Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کی مزید تفصیلات

سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات تین بنیادی نکات پر ہوئے تھے (فائل فوٹو: عرب نیوز)
چین کے تعاون سے مملکت اور ایران کے درمیان مذاکرات سے متعلق معلومات رکھنے والے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ’دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ 2021 میں عراق میں شروع ہونے والی بات چیت کا تسلسل ہے۔‘
عرب نیوز کے مطابق مذاکرات میں چین کے کردار سے متعلق ذریعے نے انکشاف کیا کہ ’صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعے کو حل کرنے کے لیے پُل کا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔‘
صدر شی نے اپنی اس خواہش کا اظہار گذشتہ برس دسمبر میں دورہ ریاض کے دوران کیا تھا، اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس اقدام کو خوش آمدید کہا تھا۔
سعودی ذرائع نے بتایا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان بیجنگ میں تین بنیادی نکات پر پانچ روز تک دن رات جاری رہنے والے اعصاب شِکن مذاکرات کے بعد جمعے کے روز بریک تھرو ممکن ہوا۔‘  
ان میں پہلا نکتہ علاقائی ممالک کی سالمیت کا احترام کرنا تھا، دوسرا نکتہ دونوں ممالک کے درمیان آئندہ دو ماہ کے دوران سفارتی تعلقات کی بحالی تھا۔‘
’اس حوالے سے دونوں ممالک وقت طے کرنے اور دیگر معاملات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے اپنے سفارت کاروں کو واپس بھیجنے کی حکمت عملی طے کریں گے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2001 میں سکیورٹی معاہدے سمیت ماضی میں کیے گئے دوطرفہ معاہدوں کی بحالی مذاکرات کا تیسرا نکتہ تھا۔
سنہ 2001 کے معاہدے پر اس وقت کے سعودی وزیر داخلہ شہزادہ نایف بن عبدالعزیز اور ان کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی نے دستخط کیے تھے۔
سعودی ذرائع نے واضح کیا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ ’دونوں ممالک کے درمیان تمام تنازعات کا خاتمہ ہو گیا ہے۔‘
چین کو سراہتے ہوئے سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’مذاکرات میں چین نے منفرد نوعیت کا کردار ادا کیا ہے اور یہ معاہدہ چین کے اقتصادی اور جیوپولیٹیکل مفادات میں ہے۔‘ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’بیجنگ میں کی گئی بات چیت میں تیل یا جوہری معاملات جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال نہیں کیا گیا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ذرائع کے مطابق ’کئی مبصرین ایران کی چین پر بڑے پیمانے پر انحصار کو کم اہمیت دیتے ہیں،‘ اس پر ذرائع نے واضح کیا کہ چین دنیا میں ایران کے صرف دو ’دوستوں‘ میں سے ایک ہے جبکہ دوسرا دوست روس ہے۔‘
معاہدے کی جو دیگر تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ریاض اور تہران نے ایک دوسرے کے خلاف عدم جارحیت کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین فوجی، انٹیلی جنس اور سائبر حملوں کے لیے استعمال ہونے دیں گے اور نہ ہی ایسے حملوں کے لیے مدد فراہم کریں گے۔  
اس کے علاوہ اعلٰی سطح کی ایک سہ فریقی کمیٹی (جس میں چین بھی شامل ہے) قائم کی گئی ہے جو معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے وقتاً فوقتاً اجلاس منعقد کرے گی۔‘
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’بیجنگ میں کی گئی بات چیت میں تیل یا جوہری معاملات جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال نہیں کیا گیا۔‘

شیئر: