Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب عمران خان کی گرفتاری کے لیے آنے والی پولیس ان کی محافظ بن گئی

پاکستان میں سیاسی حالات میں لمحہ بہ لمحہ ڈرامائی تبدیلی آ رہی ہے۔ گزشتہ تین روز سے لاہور میں سیاسی درجہ حرارت اس شدت کو پہنچ گیا کہ ایک عدالتی وارنٹ پر عمل درآمد کروانے کے لیے پولیس ہزاروں اہلکاروں کے ساتھ بھی عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
پولیس اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں 60 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ کشیدگی میں اس وقت کمی آئی جب پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پر کسی بھی طرح کے ایکشن سے روک دیا۔ لیکن اس عدالتی حکم کے آنے تک پولیس اور پی ٹی آئی کے درمیان معاملات بہت آگے جا چکے تھے۔
پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس کی تقریباً 12 گاڑیاں نذر آتش کیں تو پولیس نے بھی سینکڑوں آنسو گیس کے شیل برسائے حتٰی کہ عمران خان کے گھر میں بھی کئی شیل گرے۔
جمعے کو پولیس ایکشن روکے جانے کی تیسری عدالتی پیشی میں جب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت عدالت میں آمنے سامنے ہوئی، تو تب بھی سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس تصادم پر پولیس نے جو مقدمات درج کیے ہیں، ان کارکنوں کی گرفتاری مشاورت سے ہو۔
تاہم آئی جی پنجاب نے عدالت میں صاف جواب دیا کہ وہ ملزمان سے مشاورت کر کے ان کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کر سکتے۔
جب اُنہوں نے عدالت سے دوبارہ استفسار کیا کہ اسلام آباد عدالت کے وارنٹ ابھی قائم ہیں تو زمان پارک جانے سے متعلق کیا حکم ہے؟ تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اس بات کا جواب سہ پہر تین بجے دیا جائے گا اور سماعت ملتوی کر دی۔

پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس کی تقریباً 12 گاڑیاں نذر آتش کیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تین بجے تک صورت بالکل بدل چکی تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے وارنٹ معطل کر دیے، تو انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے حال ہی میں ان کے خلاف دائر ہونے والے نو مقدمات میں ضمانت کی درخواست دائر کر دی۔ اور ساتھ ہی عدالت سے درخواست کی کہ انہیں پولیس سکیورٹی بھی فراہم کرے۔
عدالت نے درخواست کو منظور کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی وہ عمران خان کو اپنی حفاظت میں لاہور ہائی کورٹ تک لے کر آئے اور انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔
وہی پولیس جو گزشتہ کئی روز سے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے کوشاں تھی، اب ایک عدالتی حکم پر ان کی حفاظت پر مامور ہو گئی۔
جب عدالت یہ حکم دے رہی تھی تو زمان پارک کے علاقے کے اردگرد وہ پولیس اہلکار جنہیں سٹینڈ بائی پر رکھا گیا تھا انہیں شاید اس حکم کی خبر نہیں تھی۔
جب عمران خان زمان پارک سے اپنے کارکنوں کے جلوس کے ہمراہ نکلے تو ڈیوس روڈ پر گشت کرتی ایک پولیس کی گاڑی نے جب پی ٹی آئی کے کارکنوں کو آتے دیکھا تو اسی وقت گاڑی ریورس کر کے وہاں سے بھگا لی۔
ایک صحافی نے یہ مناظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیے اور انہیں بتایا بھی کہ یہ لوگ آپ پر حملہ کرنے نہیں آ رہے، لیکن تب تک پولیس وین انتہائی برق رفتاری سے وہاں سے نکل چکی تھی۔
زمان پارک اور لاہور ہائی کورٹ تک کے فاصلے میں کم از کم پانچ تھانوں کا علاقہ لگتا ہے اور ان تمام تھانوں کی نفری گزشتہ چار دنوں سے زمان پارک میں پولیس ایکشن میں مصروف دیگر نفری کے ساتھ ہی تھی۔ اور آج انہی تھانوں کی نفری نے اپنی حفاظت میں عمران خان کو لاہور ہائی کورٹ باحفاظت پہنچایا۔

پولیس نے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر سینکڑوں آنسو گیس کے شیل برسائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہی تھانوں میں سے ایک کے ایس ایچ او نے اردو نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جو کچھ بھی ہوا یہ ہماری ڈیوٹی کا حصہ ہے۔ اور ہماری وفاداری ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ ہے۔ ہم پہلے بھی عدالتی حکم پر وہاں موجود تھے اور ابھی عدالتی حکم پر حفاظت پر مامور ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پولیس کا مورال بہت ڈاون ہے۔‘
’یہ سب فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں، ہم صرف اس میں استعمال ہو رہے ہیں۔ بس اتنا کہوں گا کہ پولیس کے جوانوں کو وہاں نہتا نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی تمام مقدمات میں ضمانتیں منظور کیں تو پولیس نے انہیں باحفاظت زمان پارک روانہ کیا۔

شیئر: