Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں پہلی بار سمندر میں کمیونٹی پولیس متعارف کرانے کا فیصلہ

کمیونٹی پولیس کا تصور بلوچستان کے محکمہ ماہی گیری نے پیش کیا ہے (فوٹو: سایو ٹریول)
پاکستانی سمندر میں غیر قانونی شکار کی روک تھام کے لیے پہلی مرتبہ کمیونٹی پولیس متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’مقامی ماہی گیروں کو تربیت دے کر بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جال کے ذریعے مچھلیوں اور سمندری حیات کے غیر قانونی شکار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
کمیونٹی پولیس کا تصور بلوچستان کے محکمہ ماہی گیری نے پیش کیا ہے جس کی وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے منظوری دے دی ہے۔ حکام کے مطابق ’اگلے مرحلے میں کابینہ سے منظوری کے بعد ایک سے دو ماہ کے اندر کمیونٹی پولیس صوبے کے ساحلی علاقوں میں کام کرنا شروع کردے گی۔ اس طرح بلوچستان کے مقامی ماہی گیر خود سمندر کے محافظ کا کردار ادا کریں گے۔‘
محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر سکندر اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ اقدام بلوچستان کے ماہی گیروں کی شکایات کے ازالے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں غیر قانونی ماہی گیری میں کمی آسکے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے بڑا ساحل (770 کلومیٹر) بلوچستان کے پاس ہے۔ ساحل سے سمندر کے اندر 12 ناٹیکل تک حدود بلوچستان کا علاقائی پانی کہلاتا ہے جس میں صرف بلوچستان کے مقامی ماہی گیروں کو شکار کی اجازت ہے، تاہم کھلے سمندر میں شکار کی اجازت رکھنے والی سندھ کی بڑی کشتیاں (ٹرالرز) کی جانب سے اس حدود کی خلاف ورزی کی شکایات آتی رہتی ہیں۔‘
سکندر اکرم کے مطابق ’ان خلاف ورزیوں پر گذشتہ پانچ سے چھ ماہ کے دوران ہم نے 70 کے قریب ٹرالر پکڑے ہیں۔ جب سے محکمہ ماہی گیری بنا ہے ابھی تک اتنی کم مدت میں سب سے زیادہ ٹرالر پکڑے گئے ہیں۔‘
’سمندر میں بلوچستان کے علاقائی پانی کی حدود 24 ہزار مربع کلومیٹر بنتی ہے جس میں شکار کی نگرانی محکمہ ماہی گیری کرتا ہے، تاہم اس وسیع و عریض سمندری علاقے کی نگرانی کے لیے محکمہ ماہی گیری کے پاس پانچ سو سے بھی کم کی تعداد میں عملہ ہے جس میں فشریز انسپکٹر، اسسٹنٹ انسپکٹر اور فشریز واچر شامل ہیں۔‘
ڈپٹی ڈائریکٹر ماہی گیری کا کہنا تھا کہ ’وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے سبب محکمہ ماہی گیری کے لیے وسیع علاقے کی نگرانی کا کام مشکل ہے اس لیے حکومت بلوچستان پاکستان میں پہلی مرتبہ سمندری کمیونٹی پولیس متعارف کرا رہی ہے۔ یہ سی پی ایل سی کراچی کی طرز پر ہوگی جس کے اندر ایک کنٹرول سینٹر ہوگا اور اس میں محکمہ ماہی گیری، فشر مین سوسائٹی اور ماہی گیروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔‘
’اس منصوبے کے تحت ماہی گیروں کو مفت سمارٹ فونز دیے جائیں گے جس میں ایک خاص اپیلی کیشن شامل ہوگی۔ جہاں کہیں بھی ماہی گیر مقامی پانیوں میں ٹرالرز کو دیکھیں گے وہ کیمرے سے تصاویر اور جی پی ایس سے لوکیشن معلوم کر کے اس اپیلی کیشن کے ذریعے کنٹرول سینٹر کو رپورٹ کریں گے۔‘

’گوادر کو حق دو‘ احتجاجی تحریک کا سب سے بڑا مطالبہ بھی ٹرالنگ کو روکنے کا تھا (فوٹو: سایو ٹریول)

ان کا کہنا تھا کہ ’اطلاع ملنے پر محکمہ ماہی گیری، لیویز، میرین فورس، کوسٹ گارڈز اور دیگر سٹیک ہولڈرز مل کر ٹرالرز کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس طرح مقامی ماہی گیروں کی شکایات کا ازالہ ہوگا۔ کامیاب کارروائی پر متعلقہ ماہی گیر کو نقد انعام بھی دیا جائے گا۔‘
ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز نے مزید بتایا کہ ’اس کے ساتھ بلوچستان کے فشریز ایکٹ 1971 میں غیر قانونی شکار کرنے والے ٹرالرز کو 10 سے 50 لاکھ روپے تک کا جرمانہ کرنے کی تجویز حکومت کو دی گئی ہے۔‘
گوادر اور لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے چھوٹے ماہی گیروں کی طویل عرصے سے شکایت ہے کہ صوبہ سندھ سے آنے والی بڑی کشتیاں بلوچستان کے علاقائی پانیوں میں داخل ہو کر گجا اور وائر نیٹ استعمال کر کے مچھلیوں اور سمندری حیات کا بے دریغ اور بے رحمانہ شکار کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ان کی نسل کشی ہو رہی ہے اور مقامی ماہی گیروں کا روزگار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان کشتیوں کے لیے مقامی ماہی گیر ’ٹرالر مافیا‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان کی سربراہی میں گوادر میں ابھرنے والی ’گوادر کو حق دو‘ احتجاجی تحریک کا سب سے بڑا مطالبہ بھی ٹرالنگ کو روکنے کا تھا۔ بلوچستان کے ماہی گیروں کی تنظیموں نے بلوچستان حکومت کے مجوزہ منصوبے کی حمایت کی ہے اور ساتھ ہی عملی اور نتیجہ خیز کارروائیوں پر زور دیا ہے۔
ماہی گیر اتحاد گوادر کے سربراہ خداداد واجو کہنا ہے کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ حکومت کمیونٹی کو شامل کر رہی ہے۔ باقاعدہ سسٹم ہوگا تو ماہی گیر شکایات درج کرا سکیں گے، لیکن حکومت کو چاہیے کہ کمیونٹی پولیس شروع کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ ماہی گیری کو پاکستانی بحریہ، کوسٹ گارڈ اور میرین فورس کی طرح بڑی کشتیاں، وسائل اور افرادی قوت بھی فراہم کریں۔‘
’محکمہ ماہی گیری کے پاس تیس سال پرانی اور چھوٹی کشتیاں ہیں جن میں مقامی ساختہ انجن لگے ہوتے ہیں جس سے ٹرالر مافیا کی بڑی کشتیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب یہ چھوٹی کشتیاں ٹرالرز کے قریب جاتی ہیں تو وہ اوپر سے ان پر پتھراؤ کرتے ہیں اور برف کے ٹکڑے پھینکتے ہیں۔ بعض کے پاس تو اسلحہ بھی ہوتا ہے۔‘
خداداد واجو کے مطابق ’سندھ میں پہلے ہی ٹرالر مافیا کی وجہ سے سمندری حیات تباہ ہوچکی ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں چھوٹے ماہی گیر ممنوعہ جال کا استعمال نہیں کرتے اس وجہ سے مچھلیوں کا ذخیرہ زیادہ ہے۔‘
’’ٹرالر مافیا کی نظریں اب بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر ہیں جہاں ایسے جال کا استعمال کرتے ہیں جس میں مچھلیوں کے انڈے تک پکڑ میں آجاتے ہیں۔ اس سے سمندری حیات کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ بلوچستان کے علاقائی پانیوں میں ہر سال چار سے پانچ ہزار ٹرالرز آتے ہیں لیکن ان کو کوئی نہیں روکتا تھا۔‘

ماہی گیر رہنما کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان فشریز ڈیپارٹمنٹ صرف دکھاوا کرتا ہے‘ (فوٹو: سایو ٹریول)

ماہی گیر رہنما کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان فشریز ڈیپارٹمنٹ صرف دکھاوا کرتا ہے، گوادر، جیونی، گنزاور پسنی سمیت پورے ساحل میں گشت کے باوجود آج بھی ٹرالرز شکار کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرالرز کو روکنا حکومت کی نیت اور خواہش نہیں۔‘
گوادر سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سیکریٹری ماہی گیری آدم قادر بخش نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹرالر مافیا بہت طاقتور ہے۔ انہیں حکومت اور اسمبلی میں بیٹھے لوگوں اور محکمہ ماہی گیری کے افسران کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس کے بدلے وہ غیر قانونی مراعات لیتے ہیں۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’گڈانی سے لے کر کنڈ ملیر تک سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ایک ٹرالر ماہانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے، اورماڑہ سے پسنی تک دو لاکھ روپے جبکہ پسنی سے جیونی تک ماہانہ اڑھائی لاکھ روپے فی ٹرالر بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔‘
آدم قادر بخش کے مطابق ’کمیونٹی پولیس کا کام ایک طرح سے ہم پہلے ہی کر رہے ہیں۔ ہم روزانہ شکایات درج کراتے ہیں لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ آج بھی اورماڑہ کے گاؤں بل میں پچاس ٹرالرز کی موجودگی کی شکایت درج کرائی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’محکمہ ماہی گیری کے پاس سات گن بوٹ ہیں جن میں سے صرف ایک چل رہی ہے۔ انہیں نئی اور بڑی کشتیاں دینی چاہییں اور محکمہ ماہی گیری کو کم سے کم چھ نئے سٹیشن بنانے چاہییں۔‘

شیئر: