Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر کے سمندر میں جانے کے لیے نئی پابندی سے ’10 ہزار ماہی گیر متاثر‘

پابندیوں کے باعث ماہی گیروں کو کئی گھنٹے سمندر میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گوادر میں حکام نے ماہی گیروں کے سمندر میں جانے کے لیے مخصوص اوقات مقرر کر دیے ہیں۔ صبح سات بجے سے ساڑھے گیارہ بجے اور دوپہر ساڑھے تین بجے سے شام سات بجے تک ماہی گیروں کو سمندر میں جانے یا واپس ساحل آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس بات کا انکشاف گوادر سے تعلق رکھنے والے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہی گیروں کو سمندر میں جاتے ہوئے کھانے پینے کی اشیا اور ضروری سامان بھی لے جانے نہیں دیا جاتا۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ماہی گیروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں کئی کئی گھنٹوں تک سمندر میں انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی مچھلیاں بھی خراب ہوجاتی ہیں۔
ماہی گیر اتحاد گوادر کے سربراہ خدائے داد واجو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ 'ماہی گیروں کی نقل و حرکت پر پابندی 21 اگست کو گوادر میں ایسٹ بے ایکسپریس وے پر کام کرنے والے چینی انجینیرز کی گاڑی پر خودکش حملے کے ایک ہفتے بعد لگائی گئی تھی۔'
  سربراہ خدائے داد واجو کے مطابق 'پابندی سے 10 ہزار ماہی گیر متاثر ہوئے ہیں۔'
اس سے پہلے حکومت کی جانب سے بندرگاہ سمیت گوادر کے اس حصے کو آہنی باڑ لگا کر محفوظ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جہاں اہم سرکاری عمارات واقع ہیں۔ شدید تنقید کے بعد حکومت نے رواں سال مارچ میں اس منصوبے پر کام روک دیا تھا۔
بلوچستان اسمبلی کے رکن حمل کلمتی نے اجلاس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر کوئی ماہی گیر مچھلیاں پکڑ کر آ بھی جائے تو وہ شام سے پہلے سمندر سے نکل کر ساحل پر نہیں آ سکتا، اس طرح مچھلیوں کے خراب ہونے کے باوجود سات سات گھنٹے کشتی میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔'

پابندیوں سے 10 ہزار ماہی گیر متاثر ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں مچھلی کی ایک خاص قسم کا سیزن ہے جس کا دورانیہ صرف ڈھائی مہینے ہوتا ہے۔ یہ مچھلیاں پہاڑ کے قریب ہوتی ہیں مگر جب سے پرل کانٹینیٹل ہوٹل پر حملہ ہوا ہے اس پہاڑ کے قریب ماہی گیروں کومچھلیاں پکڑنے نہیں دی جاتیں۔
حمل کلمتی کے مطابق 'جب چینی سڑک پر کام کرنے آتے ہیں تو پورا علاقہ سیل کر دیا جاتا ہے کہ کوئی اس وقت ہل بھی نہیں سکتا، ماہی گیر اپنا کھانا اور جال بھی نہیں لے جا سکتے۔'
’ماہی گیر اپنی لکڑی کی چھوٹی کشتیوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے ہر مہینے ایک خاص قسم کا مواد لگاتے ہیں، اب وہ مواد بھی کشتیوں پر لگانے نہیں دیا جا رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماہی گیر سمندر کے کنارے بنے شیڈ کے نیچے مچھلی کے شکار کے لیے جال بناتے تھے اب وہاں بھی ماہی گیروں کو جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ماہی گیر 20 20 فٹ کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں وہ جال کہاں بنائیں۔‘
گوادر ماہی گیر اتحاد کے سربراہ خدائے داد واجو نے بتایا کہ ’ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کے لیے ایکسپریس وے کے نیچے سے 100 100 فٹ کے تین راستے دیے گئے ہیں۔ ان راستوں کے اوپر اس وقت پل بنائے جارہے ہیں جن کی تعمیر کا کام چینی انجینیئرز کر رہے ہیں۔ حکام نے ہمیں بتایا ہے کہ جب تک پل مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک ماہی گیر صرف مخصوص اوقات میں ہی سمندر میں جا اور واپس آ سکتے ہیں۔‘

چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد ماہی گیروں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ 'ماہی گیروں کو صبح سات بجے سے گیارہ بجے اور دوپہر ساڑھے تین بجے سے شام سات بجے تک سمندر میں جانے یا سمندر سے واپس ساحل کی طرف آنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ ان اوقات میں چینی انجینیئرز تعمیراتی سائٹ پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'گوادر کے اس حصے سے دو ہزار کشتیاں گزرتی ہیں۔ ہر کشتی میں پانچ سے چھ ماہی گیر ہوتے ہیں، اس طرح 10 ہزار سے زائد افراد اس پابندی سے متاثر ہیں۔'
خدائے داد وجود کے مطابق گوادر کے ماہی گیر پہلے ہی سندھ اور کراچی سے آنے والی بڑی کشتیوں کی جانب سے مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کی وجہ سے پریشان ہیں جو 12 ناٹیکل میل کی متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساحل کے قریبی علاقوں میں بڑے اور ممنوعہ جالوں کی مدد سے شکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے مچھلیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صبح سمندر میں جانے سے پہلے ہر ماہی گیر کی ساحل پر انٹری ہوتی ہے، ان کے شناختی کارڈ، لائسنس اور کوائف کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ واپسی پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
’جانچ پڑتال کے اس عمل کے لئے قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے چند اہلکار تعینات کیے ہوئے ہیں، جبکہ ماہی گیروں کی تعداد ہزاروں میں ہیں انہیں گھنٹوں قطار میں کھڑا ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حکام کو اہلکاروں کی تعداد بڑھانی چاہیے تاکہ جانچ پڑتال کا عمل جلد مکمل کیا جاسکے۔‘

ماہی گیر مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کے باعث بھی پریشان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ماہی گیر اتحاد کے خدائے واجو کے مطابق 'ماہی گیروں کو سکیورٹی کے نام پر تنگ کیا جا رہا ہے جب ماہی گیر احتجاج کرتے ہیں اور آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ماہی گیروں کو درپیش انہی مسائل پر آواز اٹھانے پر ماہی گیر اتحاد کے جنرل سیکریٹری یونس انور کو گذشتہ ہفتے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور کئی دنوں بعد انہیں چھوڑا گیا، ان حالات میں ماہی گیر خوفزدہ ہیں۔'
وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے کئی حصوں میں چیک پوسٹیں ضرورت سے زائد ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہے، گوادر میں چیک پوسٹوں سے متعلق شکایات کے لیے جلد اجلاس بلایا جا رہا ہے۔ سپیکر صوبائی اسمبلی نے بھی گوادر کے مسئلے پر پارلیمانی کمیٹی بنا دی ہے۔
اردو نیوز نے ڈپٹی کمشنر گوادر اور محکمہ ماہی گیری سے نئی پابندی سے متعلق مؤقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تاہم انہوں نے اس معاملے پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔

شیئر: