Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پلان بی کی اس سیاست میں سب کا ہی نقصان ہے: ماریہ میمن کا کالم

فی الحال عمران خان کے پاس احتجاج اور سٹریٹ پاور کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آ رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سیاست میں اب ہر طرف پلان بی کا راج ہے اور پلان بی کی سیاست مجبوری، بے چینی اور جذباتیت پر مبنی ہوتی ہے۔
پلان بی کے سامنے آنے کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے کہ اصل منصوبہ یا تو ناکام ہو گیا اور یا پھر پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ پلان بی تک پہنچنے کا ایک اور مطلب توقعات اور خواہشات پر سمجھوتہ بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی کھیل میں اور ہماری موجودہ صورتحال کے مطابق تمام کھلاڑی ہی پلان بی تک آ جائیں تو اس کا آخری مطلب تمام کی کسی نا کسی حد تک ناکامی ہے۔
پی ڈی ایم یا موجودہ حکومت کو ہی لیجیے۔ ان کے خیال میں ان کو ڈیڑھ سال تک حکومت کرنی تھی اور اپنے پرانے سیاسی و دیگر نقصانات کا ازالہ کرنا تھا۔ ایسا ہو نہ سکا اور شروع میں ہی ان کو پنجاب حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ایک دفعہ واپسی ہوئی مگر دوبارہ پی ٹی آئی اور پرویز الٰہی کی حکومت بن بھی گئی اور کچھ عرصے بعد تحلیل بھی ہو گئی۔ اس کے بعد ان کے تمام ابتدائی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور کم از کم پنجاب میں طاقت کا توازن پی ٹی آئی کی طرف منتقل ہو گیا۔
معاشی میدان میں مفتاح اسماعیل پلان اے کے تحت سامنے آئے اور کچھ عرصے بعد ہی ن لیگ کی اندرونی سیاست کا شکار ہو کر حکومت اور پارٹی دونوں ہی سے دور ہو گئے۔
معیشت کا پہلا پلان بھی کہیں ادھر ادھر ہو گیا اور ڈالر اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کچھ ادھوری کوششوں کے بعد اب حکومت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف پکڑائی نہیں دے رہا، یہاں بھی طاقت کا توازن مکمل طور پر حکومت کے خلاف ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاست کو دیکھیں تو اُنہوں نے دونوں اسمبلیاں تحلیل کر کے اپنے اولین منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔ اسمبلیاں توڑنا ایک پُرخطر مگر مضبوط فیصلہ تھا مگر اس فیصلے کا متوقع نتیجہ نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان نے اپنے وفد کو مزید مذاکرات کا حصہ بننے سے روک دیا ہے۔

حکومت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف حکومت بمعہ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے واضح طور پر دو صوبوں میں فوری الیکشن سے انکار کر چکے ہیں۔ اب عمران خان کو اپنے پلان بی کے طرف جانا ہو گا۔ ویسے تو پچھلے سال میں انہوں نے کئی سیاسی سرپرائز دیے ہیں مگر فی الحال تو ان کے پاس احتجاج اور سٹریٹ پاور کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آ رہا۔ اجتجاج کے لیے البتہ جس انتظام اور تحریک کی ضرورت ہے وہ جوش اور تیاری بھی فی الحال نظر نہیں آ رہی۔ اس کے علاوہ ان کا زیادہ انحصار اب سپریم کورٹ پر ہی ہے۔
سپریم کورٹ اور ان کے فیصلے کچھ عرصے سے سیاست کا رخ متعین کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت سپریم کورٹ کے سوموٹو کے بعد ہی اقتدار میں آئی۔
دوسری طرف پنجاب میں انتقال اقتدار کا فیصلہ بھی بذریعہ عدالت ہوا۔ اب عدالت کے سامنے آئین کے تحت الیکشن کروانے کا حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ عدالت کے ابتدائی احکامات جن میں 14 مئی کو الیکشن کروانے کی ہدایت کی گئی تھی، پر عمل درامد ہوتا نظر نہیں آتا۔
سوال یہ بھی ہے کہ قانونی پلان بی کیا ہو گا؟ کیا بات اب توہین عدالت اور نااہلی تک جائے گی؟ کیا پی ٹی آئی کی سیاسی تحریک عدلیہ کے حق کی تحریک میں جذب ہو جائے گی؟ یہ سب غیر متوقع اقدامت اب پلان بی کے مطابق لیے جائیں گے۔

سپریم کورٹ اور ان کے فیصلے کچھ عرصے سے سیاست کا رخ متعین کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پلان بی کی سیاست بے چینی، اضطراب اور جذبات کی سیاست ہوتی ہے۔ پلان بی تک آتے آتے پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور فریقین کی نقصان اٹھانے کی استطاعت بھی بہت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ سیاسی کھیل میں عوام حصہ دار بھی ہوتے ہیں اور تماشائی بھی: قلیل عرصے کے تماشائی مگر طویل مدت میں تو اصل اثرات سسٹم اور عوام کو ہی اٹھانے پڑتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے اقدمات کا بوجھ بھی آخر میں عوام پر آتا ہے۔
موجودہ سیاسی کھیل میں تمام کھلاڑی اپنے اولین منصوبوں سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب باقی کھیل میں نقصان یقینی ہے چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ۔ مقتدر حلقے یا امپائر تک کے فیصلے اب نفاذ کے مسائل کا شکار ہیں۔ وہاں سے بھی پلان بی وغیرہ خارج از امکان نہیں۔ سارے کھلاڑی تھکے اور مضمحل ہیں مگر لڑائی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پلان بی کی اس سیاست میں سب کا ہی نقصان ہے۔

شیئر: