Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے آپشنز، مفاہمت یا مزاحمت؟ ماریہ میمن کا کالم

کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار سے نکلنے کے بعد اس طرح سیاسی طور پر باؤنس بیک نہیں کر سکی جس طرح پی ٹی آئی نے کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف گزشتہ ایک دہائی کے سیاسی سفر کے شاید سب سے مشکل موڑ پر ہے۔ پی ٹی آئی بطور جماعت تو ظاہر ہے 90 کی دہائی سے سیاست میں ہے مگر 2012  ہی وہ سال تھا جب پی ٹی آئی ایک مضبوط، منظم اور متحرک جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ پہلے تیسری قوت کے طور پر اپنا اثر دکھایا، پھر سب سے بڑی جماعت ن لیگ کو چیلنج کیا اور آخرکار سادہ اکثریت حاصل کر کے اقتدار پر براجمان ہونے کا خواب بھی پورا ہوا۔ 
پی ٹی آئی مگر پاکستان کی تاریخ میں واحد جماعت بھی ثابت ہوئی جس کو قومی اسمبلی کے اندر ہوئی تبدیلی سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مگر جس طرح پی ٹی آئی کا اقتدار سے جانا ایک فرسٹ (پہلی بار) تھا اسی طرح پارٹی کا دوبارہ قلیل ترین مدت میں عوامی حمایت حاصل کرنا بھی ایک فرسٹ تھا۔
کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار سے نکلنے کے بعد اس طرح سیاسی طور پر باؤنس بیک نہیں کر سکی جس طرح پی ٹی آئی نے کیا۔ اسی عوامی مقبولیت نے عمران خان کو یہ اعتماد دیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے، دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں اور اپنے خلاف کیسز کا نہ صرف عدالتوں بلکہ گلیوں اور سڑکوں میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ 
اسی مقابلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے ستارے گردش میں بھی آ چکے ہیں۔ نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کے لیے معروضی حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ ریاست کی طرف سے واضح اور ڈائریکٹ کارروائی شروع ہو چکی ہے اور پی ٹی آئی کے آپشنز بظاہر محدود ہوتے نظر رہے ہیں۔ اس کی واضح نشانیاں زمان پارک پر جاری کارروائیوں کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ زمان پارک جو کہ علامتی اور حقیقی طور پر پی ٹی آئی کا قلعہ بن چکا تھا اب وہاں پر پولیس کا پہرہ ہے اور انتظامیہ کی طرف سے مطلوب کارکنوں کے گرفتاری کے لیے براہ راست عمران خان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ 

عمران خان اپنے خلاف کیسز کا نہ صرف عدالتوں بلکہ گلیوں اور سڑکوں میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی عمل سے پی ٹی آئی کے آپشنز کا پتہ چلتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک حکومتی اتحاد اور عمران خان کے نمائندوں کے درمیان الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات ہو رہے تھے۔ الیکشن کی تاریخ پر گفت و شنید سے کارکنوں کی متوقع گرفتاری کا سفر پی ٹی آئی کے لیے کچھ ہی ہفتوں میں طے ہو گیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یکم جولائی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی آفر بھی اب موجود نہیں ہو گی۔ اب تو اس کی جگہ عمران خان کے بیرون ملک جانے کی بازگشت نے لے لی ہے جس کے امکانات ابھی بھی محدود تر ہیں، مگر کہتے ہیں سیاست میں ایک ہفتہ بھی فیصلہ کن ہوتا ہے، یہ عملی طور پر نظر آ گیا ہے۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے پاس آپشن تھا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت کرتے رہتے مگر پی ٹی آئی کے نظریاتی اور جذباتی گروپ کی طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل کا کیس بنایا گیا جو عمران خان کی سوچ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا تھا۔ نتیجتاً پی ٹی آئی حکومت سے سڑکوں پر آ گئی۔ اسی طرح نوے دن میں انتخابات اور سپریم کورٹ کے احکامات کے نفاذ پر پی ٹی آئی کی امیدیں تھی مگر حکومت نے آئینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتخاب کی مقررہ تاریخ گزار دی ہے۔
پی ٹی آئی کے سخت اور بے لاگ موقف سے ایک طرف ان کو حکومت سے سڑک پر آنا پڑا مگر دوسری طرف اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ ان کی مقبولیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس عوامی حمایت کو پارٹی چھوڑنے والوں سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف اس بات میں بھی شک نہیں کہ ادارہ جاتی توازن بتدریج پی ٹی آئی کے لیے غیرموافق ہوتا جا رہا ہے۔
سوال آخر میں اب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے کیا آپشنز ہیں؟ پی ٹی آئی نے اجتجاج، اسمبلیوں کی تحلیل اور قانونی محاذوں پر چومکھی لڑی ہے مگر اب ان کے سامنے ایک ہی منزل ہے اور وہ ہے اکتوبر میں فری اینڈ فیئر انتخابات جس کا دارومدار ادارہ جاتی توازن پر ہے۔

نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کے لیے معروضی حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی طرف سے متعدد بار مقتدر حلقوں کی طرف مفاہمت کے اشارے بھی کیے گئے ہیں مگر اس کے ساتھ ان کی سیاست کا رنگ ظاہر ہے غیر مفاہمانہ ہے۔ الیکشن کے انعقاد میں برابری کی فضا سب سے زیادہ ان کے پیش نظر ہو گی اور اس کے لیے ان کو اب اپنی طرف سے برابری کا کیس لڑنا ہو گا۔
یہ برابری اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب وہ اور ان کے رہنما جیلوں کے بجائے عملی میدان میں ہوں۔ اس کے لیے امکان یہی ہے کہ اب بات سڑک سے مذاکرات کی میز پر آئے۔ اس بات کی بھی توقع ہے کہ وہ حالیہ احتجاج پر بھی کوئی درمیانی رستہ لیں گے۔
ان کے لیے دوسرا ہدف اپنے آپ کو نااہلی اور سزا سے بچانا ہے جس میں ابھی تک تو وہ کامیاب رہے ہیں مگر آگے ان کے لیے چیلنج اپنے قانونی، صحافتی اور عوامی سپورٹ سسٹم کو برقرار رکھنا ہے۔ اس میں وقت کے ساتھ مقابلہ بھی ہے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طاقت کا توازن اوپر نیچے ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی کی نظر البتہ اصل میدان یعنی اکتوبر کے الیکشن پر ہو گی کہ وہ جب اس میدان میں اتریں تو ان کے پاس معرکے کے لوازمات موجود ہوں۔

شیئر: