Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اوورسیز سپانسرشپ حج سکیم‘ کیوں ناکام ہوئی؟

رواں برس ایک لاکھ 80 ہزار کے قریب پاکستانیوں کے لیے حج انتظامات کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی وزارتِ مذہبی امور کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ’اوورسیز سپانسرشپ حج سکیم‘ ملک میں باہر سے پیسوں کی ترسیل کا نظام خراب ہونے اور پاسپورٹس کی تیاری میں تاخیر کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ 
حکومت پاکستان نے رواں برس بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے یہ سپانسرشپ حج سکیم متعارف کروائی تھی جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی حکومت کے ڈالر اکاؤنٹ میں بیرون ملک سے حج اخراجات کی رقم بھیج کر اپنے یا اپنے عزیزوں کے لیے بغیر قرعہ اندازی کے حج کرنے والوں میں شامل ہو سکتے تھے۔ 
اس سکیم کا مقصد بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالر منگوا کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا اور اس کے ذریعے حج اخراجات پورے کرنا تھا۔ تاہم اس سکیم کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور صرف سات ہزار کے قریب بیرون ملک پاکستانیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ 
اس بارے میں استفسار پر وزارت مذہبی امور کے حکام کا کہنا تھا کہ اس سکیم کی افادیت اپنی جگہ قائم ہے تاہم مناسب وقت نہ ہونے، بینکنگ سسٹم اور پاسپورٹ نظام سے بروقت استفادہ نہ کر سکنے کے باعث اس میں کم درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

پاسپورٹ نظام کی سست روی

وزارت مذہبی امور کے ترجمان عمر بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس سکیم کے تحت 44 ہزار حجاج کا کوٹہ مختص کیا گیا تھا تاہم اس کے لیے سات ہزار سے زائد کچھ افراد نے درخواستیں جمع کروائیں۔
’اس سکیم کے لیے کم درخواستیں آنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ترسیلی نظام، ڈالر کا نظام بہت پیچیدہ تھا، کئی (درخواست گزاروں) کی رقوم آج بھی رکی ہوئی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سکیم کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ اس کے لیے پاکستانی پاسپورٹ لازمی قرار دینا تھا۔
’بہت سے بیرون ملک پاکستانی دوہری شہریت کے مالک ہیں اور کافی عرصے سے قومی پاسپورٹ کے بجائے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے بنائے گئے خصوصی نائیکوپ کارڈ پر پاکستان آتے جاتے ہیں۔ ان کے لیے فوری طور پر نیا پاسپورٹ بنوانا بہت مشکل تھا۔‘

اس سکیم کے لیے سات ہزار سے زائد کچھ افراد نے درخواستیں جمع کروائیں۔ (فوٹو: وزارت مذہبی امور)

عمر بٹ کے مطابق یہ سکیم ایسے وقت پر آئی جب پاسپورٹ کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار تھا کیونکہ کچھ ماہ سے بہت زیادہ لوگ پاسپورٹ بنوا رہے ہیں اور بیرون ملک سے پاسپورٹ کے لیے درخواستیں جمع کروانے والوں کو بروقت فراہمی ناممکن تھی۔

ڈالرز منتقلی میں کئی بنکوں کا کردار

بیرون ملک سے رقوم کی ترسیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزارت مذہبی امور کے ترجمان نے کہا کہ اس میں متعدد غیرملکی اور ملکی بینک شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کئی مرتبہ پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب کوئی شخص آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ یا خلیجی ممالک سے پیسے بھجواتا ہے تو تجربے سے (ہمیں) پتہ چلا ہے کہ رقم براہ راست یہاں اکاؤنٹ میں نہیں آتی بلکہ درمیان میں ایک یا دو بینکوں کی وساطت سے پہنچتی ہے۔ تو بعض اوقات رقم درمیان میں رک جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت وقت لگ رہا تھا۔‘
’پہلی مرتبہ ان کو حکومت کے ڈالر اکاونٹ میں پیسے بھیجنے تھے تو اس میں بہت مشکلات دیکھنے میں آئیں۔ بینکوں کو بھی ہم نے بہت زیادہ آگاہ کیا، انہوں نے بھی کافی کوشش کی۔ سات ہزار 50 یا 60 درخواستیں کامیاب ہوئیں۔‘
عمر بٹ کا کہنا تھا کہ جن بیرون ملک پاکستانیوں کی رقوم نہیں پہنچ سکیں ان کو بھی حج قافلے میں شامل کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’شاید دو چار سو کیس ایسے ہیں جن کی رقوم نہیں پہنچ سکیں۔ ان کا بھی ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے، جو بھی ہوا ان کے لیے مثبت ہو گا۔‘

اس سکیم کا مقصد بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالر منگوا کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا اور اس کے ذریعے حج اخراجات پورے کرنا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

درخواستیں جمع کروانے کے لیے وقت کی کمی

وزارت مذہبی امور کے ترجمان کے مطابق ’اس سکیم کی ناکامی کی ایک اور وجہ درخواست گزاروں کو کم وقت دینا تھا۔ شاید سولہ دن دیے لیکن یہ بھی شاید کم تھے۔‘
رواں برس ایک لاکھ 80 ہزار کے قریب پاکستانیوں کے لیے حج انتظامات کیے گئے ہیں۔ وزارت مذہبی امور کے مطابق ان میں 1800 کے قریب وہ افراد بھی شامل ہیں جو دوسرے حجاج کی خدمت کے لیے بھجوائے جا رہے ہیں۔
ان میں180 ڈاکٹرز اور 360 پیرا میڈیکل سٹاف پر مشتمل 550 افراد کا طبی عملہ بھی شامل ہے۔ 
رواں سال ایک پاکستانی حاجی اوسطاً 38 سے 42 دن حجاز میں گزارے گا۔ ان حاجیوں کی آمدورفت کے لیے ایک ماہ تک پروازیں چلتی رہیں گی۔

شیئر: