Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں شناختی کارڈ میں نام کی درستی کا عمل واقعی آسان ہو گیا ہے؟

’شناختی کارڈ کی تصحیح سے متعلق تمام کیسز اب ضلعی، علاقائی اور مرکزی ویریفیکیشن بورڈز کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
کراچی کی رہائشی چار بچوں کی والدہ روبینہ جاوید نے ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر قومی شناختی کارڈ میں اپنے نام کی درستی کا عمل مکمل کرلیا ہے۔
اُن کے مطابق ایک عام شہری کے لیے شناختی کارڈ میں نام کی درستی کا عمل مکمل کرنا بسا اوقات بہت مشکل اور صبر آزما ہو جاتا ہے۔
روبینہ جاوید نے بتایا کہ ’وہ ہر صبح بچوں کی دیکھ بھال کے بعد نادرا کے دفاتر کے طویل چکروں کے لیے نکل پڑتیں، کئی بار دفتر کے باہر طویل قطاروں میں کھڑی رہتیں اور درخواستیں جمع کرواتیں۔‘
بائیومیٹرک تصدیق کے لیے انہیں اپنے بہن بھائیوں کو بھی ساتھ لے جانا پڑا تاکہ تمام ضروری ڈیٹا درست طریقے سے ریکارڈ ہو سکے۔
ہر بار جب درخواست مکمل ہونے کے قریب پہنچتی، کسی ناگزیر مسئلے یا کاغذات پورے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دوبارہ دفتر کا رُخ کرنا پڑتا، جس سے اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا۔
روبینہ کی یہ کوشش نہ صرف تھکا دینے والی تھی بلکہ اس سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ شناختی کارڈ میں چھوٹی سی تبدیلی کس حد تک پیچیدہ اور وقت طلب ہو سکتی ہے۔
لیکن اب نادرا کی نئی پالیسی کے بعد روبینہ جیسی مشکلات کا سامنا کرنے والے شہریوں کے لیے یہ عمل کافی آسان ہو گیا ہے۔
نئے مرحلہ وار نظام، واضح رہنمائی اور آن لائن سہولیات نے شہریوں کو غیر ضروری چکر اور تاخیر سے بچا لیا ہے، جس سے شناختی کارڈ میں نام یا دیگر معلومات کی درستی کا عمل اب کئی گنا تیز اور آسان ہو گیا ہے۔
پاکستان میں قومی شناختی کارڈ ہر شہری کی قانونی اور سماجی شناخت کا بنیادی ذریعہ ہے۔
یہ نہ صرف اندرون ملک ووٹ ڈالنے، ملازمت کے حصول، اور مالی لین دین کے لیے ضروری ہے بلکہ بیرونِ ملک سفر اور شہریت کی تصدیق کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
نادرا اس اہم دستاویز کے اجرا، تجدید اور ترمیم کا ذمہ دار ہے، اور اس نے حال ہی میں شناختی کارڈ، ب فارم اور فیملی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ میں نام کی تبدیلی یا ترمیم کے لیے واضح رہنما اصول جاری کیے ہیں۔
نادرا کے مطابق اس عمل کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ درخواست گزار کے پاس یونین کونسل یا کنٹونمنٹ بورڈ سے جاری شدہ کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہو، جس میں تصحیح شدہ یا نیا نام درج ہو۔

اوورسیز پاکستانیز اب نادرا کے پورٹل کے ذریعے اپنی شناختی معلومات میں ترمیم کر سکتے ہیں (فائل فوٹو: نادرا)

برتھ سرٹیفیکیٹ اگر دستیاب نہ ہو تو نادرا کا وضع کردہ حلف نامہ استعمال کیا جا سکتا ہے—ب فارم کے لیے ’سی  1‘ اور شناختی کارڈ کے لیے ’سی 2‘ فارم۔
مذہب کی تبدیلی کی صورت میں دارالافتا کا جاری کردہ سرٹیفیکیٹ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
نادرا کا عمل مجموعی طور پر چھ مراحل پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں مرحلہ وار مکمل کرنا لازمی ہے۔
سب سے پہلے شہری نادرا سینٹر پہنچ کر ٹوکن حاصل کرتا ہے۔ بعدازاں اس کی بائیومیٹرک تصدیق کی جاتی ہے، جس میں انگلیوں کے نشانات اور دیگر بائیومیٹرک ڈیٹا ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں ڈیٹا انٹری کا عمل ہوتا ہے، جہاں درخواست گزار کے کوائف درج کیے جاتے ہیں، تازہ تصویر کھینچی جاتی ہے اور فنگر پرنٹس دوبارہ لیے جاتے ہیں تاکہ ریکارڈ کی درستی یقینی بنائی جا سکے۔
چوتھے مرحلے میں درخواست کی منظوری دی جاتی ہے اور اس دوران شناختی کارڈ میں ترمیم کے لیے کسی قسم کی اٹیسٹیشن یا گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
پانچویں مرحلے میں فیس کی ادائیگی شامل ہے، جو درخواست کی منظوری کے بعد درخواست گزار کے موبائل نمبر پر موصول ہونے والے پیغام کے ذریعے کی جاتی ہے، اور یہ فیس نادرا دفتر میں یا آن لائن جمع کروائی جا سکتی ہے۔
آخر میں منتخب کیٹیگری کے مطابق مقررہ مدت مکمل ہونے پر شہری اپنا نیا یا ترمیم شدہ شناختی کارڈ وصول کرتا ہے۔

برتھ سرٹیفیکیٹ اگر دستیاب نہ ہو تو نادرا کا وضع کردہ حلف نامہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

نادرا نے فیس کے تین درجے مقرر کیے ہیں ایگزیکٹیو کیٹیگری میں 2500 روپے فیس کے ساتھ سات دن میں شناختی کارڈ تیار ہوتا ہے، ارجنٹ کیٹیگری میں 1500 روپے فیس کے ساتھ 15 دن میں، جبکہ نارمل کیٹیگری میں 750 روپے فیس کے ساتھ 30 دن میں کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔
نادرا کی پالیسی میں شادی شدہ خواتین کے لیے ایک نمایاں تبدیلی یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شناختی کارڈ پر والد یا شوہر کا نام درج کروا سکتی ہیں، جو قانونی خودمختاری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
اسی طرح بچوں کے بائیومیٹرک ریکارڈ کے لیے بھی تفصیلی شرائط طے کر دی گئی ہیں، تین سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے صرف پیدائش کی رجسٹریشن، تین سے دس سال کے لیے تصویر اور ممکن ہو تو آنکھ کا سکین، جبکہ 10 برس کے بچوں اور 18 سال کے نوجوانوں کے لیے مکمل بائیومیٹرک تصدیق لازمی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کے لیے قومی شناختی کارڈ یا نائیکوپ بنوانے یا اس کی تجدید کا عمل ایک پیچیدہ، وقت طلب اور مہنگا عمل رہا ہے۔ 
تاہم نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے متعارف کرائی گئی نئی آن لائن سہولت نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ عمل نہ صرف آسان بنا دیا ہے بلکہ انہیں پاکستان آنے کی زحمت سے بھی بچا دیا ہے۔
بیرون ملک مقیم شہری اب نادرا کے پورٹل کے ذریعے چند مراحل میں اپنی شناختی معلومات میں ترمیم کر سکتے ہیں۔

نئے مرحلہ وار نظام، اور آن لائن سہولیات نے شہریوں کو غیر ضروری چکر سے بچا لیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نادرا پورٹل پر شہری اپنا اکاؤنٹ بنا کر اپنی معلومات درج کر سکتے ہیں۔ آن لائن پاسپورٹ، اصل نائیکوپ یا سی این آئی سی، نادرا کا حلف نامہ اور شادی یا طلاق کی صورت میں متعلقہ سرٹیفیکیٹ کی سکین کاپیاں اپ لوڈ کرنے کے بعد بائیومیٹرک تصدیق کے لیے شہری یا تو قریبی پاکستانی سفارت خانے یا قونصل خانے میں جا کر یہ عمل مکمل کروا سکتے ہیں۔
فیس کی ادائیگی بین الاقوامی کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے آن لائن کی جا سکتی ہے۔ درخواست کی منظوری کے بعد نیا شناختی کارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ آن لائن سہولت نہ صرف وقت اور اخراجات کی بچت فراہم کرے گی بلکہ اس سے پاکستان کے شناختی نظام کی بین الاقوامی ساکھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
نئے ٹیسلن کارڈز میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں نام کی موجودگی اور کیو آر کوڈ کا اضافہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سرحدی ادارے اور عالمی سطح پر تصدیق کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے اندر مقیم شہریوں کے لیے یہ عمل کس قدر شفاف اور مؤثر ہے؟
اس حوالے سے ترجمان نادرا شباہت علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شناختی کارڈ یا دیگر سرکاری دستاویزات کی تصحیح سے متعلق تمام کیسز اب ضلعی، علاقائی اور مرکزی ویریفیکیشن بورڈز کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔‘

نادرا حکام کی جانب سے کسی بھی شہری کا کیس 30 دن کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (فائل فوٹو: نادرا) 

’نادرا حکام کی جانب سے 30 دن کے اندر کیس مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کا مقصد درخواست گزاروں کو غیر ضروری تاخیر سے بچانا اور عمل کو شفاف بنانا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’یہ اقدامات جعل سازی کے امکانات کو کم کرتے ہیں اور شہریوں کو اپنی شناخت میں بروقت درستی کا موقع دیتے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ڈیجیٹل سہولت، خواتین کو قانونی شناخت میں اختیار، اور بچوں کے لیے واضح بائیومیٹرک پالیسی یہ تمام اصلاحات اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کا شناختی نظام بتدریج جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو رہا ہے۔‘
نادرا کے موجودہ نظام اور پالیسی اپ ڈیٹس ایک مربوط، شفاف اور سہل عمل فراہم کرتے ہیں، چاہے شہری ملک کے اندر رہتے ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں۔ 
یہ اصلاحات قومی شناختی ڈھانچے کو مزید مضبوط بنانے اور عوامی سہولت کو فروغ دینے کی جانب ایک نمایاں پیش رفت سمجھی جا رہی ہیں۔

 

شیئر: