Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب کپتان کو نئے سپیل اور نئی فیلڈ کی ضرورت ہے

پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کے اہم ارکان نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے اندر جو توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کسی طور رکتا نظر نہیں آ رہا اور ہر روز اس کے ایک دو رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عمران خان کے سب سے قریبی حلقے میں شامل فواد چوہدری نے بھی سیاست سے وقفہ لیتے ہوئے اپنے قائد سے راہیں جدا کر لی ہیں اور اسد عمر نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور کور کمیٹی کے عہدے چھوڑ دیے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مضبوط ترین آواز اور عمران خان کا دھڑلے سے دفاع کرنے والی شیریں مزاری بھی انہیں خیرباد کہہ گئیں اور برسوں پرانے ساتھی عامر کیانی نے بھی فاصلہ اختیار کرنے میں ہی حکمت جانی ہے۔  
یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق یہ جلدی نہیں تھمے گا۔ اگر عمران خان اپنے بیانیے پر نظر ثانی کر بھی لیتےہیں اور مقتدر قوتوں کے ساتھ ان کے روابط بحال بھی ہو جاتے ہیں تو بھی انہیں سیاست کے مرکزی سٹیج پر واپسی کے لیے طویل وقت درکار ہو گا۔ 
تو کیا عمران خان اور ان کی سیاست اب قصہ پارینہ بن گئی ہے؟ ان کو اپنی سیاست اور سیاسی مستقبل برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کو اب ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے جو مشکل ہوں گے، چاہے وہ ان کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہوں یا نہیں۔
اعتماد بحالی کے لیے فوری فیصلے
پاکستان کے صف اول کے سیاسی تجزیہ کار اور ملکی سیاست کو کئی دہائیوں سے قریب سے دیکھنے والے سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو فوری طور پر سی بی ایم ( اعتماد بحالی کے اقدامات) کرنا چاہیئں اور وہ جتنا جلدی یہ کریں گے ان کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے لیے نئی مشکلات کھڑی ہوئیں۔ فوٹو: اے ایف پی

نو مئی سے اظہار لا تعلقی
ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ اقدامات کیا ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان تمام لوگوں سے اظہار لا تعلقی کریں جو نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں اور دوسرے پر تشدد واقعات میں ملوث تھے۔
’جو لوگ ان واقعات میں ملوث تھے ان کو فوراً پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔ عمران خان اعلان کریں کہ ان کا ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ان واقعات کی کھل کر مذمت کریں اور اپنا جارحانہ رویہ تبدیل کریں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ جو لوگ خود ان کی پارٹی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کو وہ کیسے روکیں گے تو اس کے جواب میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’بیانیہ بدلیں گے تو جانے والے خود بخود رک جائیں گے۔‘
’اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کر کے آپ اقتدار حاصل نہیں کر سکتے۔‘
نواز، شہباز، زرداری کو فون گھمائیں
تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان حالات کا نتیجہ ہے جو انہوں نے خود پیدا کیے ہیں اور ان کے اثرات سے وہ تب ہی نکل سکتے ہیں جب وہ نقصان کا درست اندازہ اور اس پر قابو پانے کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔
’ان کو ان تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرنا پڑے گی جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ ان کو انتہائی عاجزانہ انداز میں ان لوگوں سے بات کرنے کے لیے ابلاغ کی راہیں کھولنا ہوں گی۔‘
ڈان ٹیلی ویژن کے سیاسی تجزیاتی پروگرام کی میزبان نادیہ نقی اس بات کو زیادہ واضح انداز میں بیان کرتی ہیں۔
’اس صورتحال سے نکلنے کے لیے عمران خان کو نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کو فون گھمانا پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمان سے بھی بات کرنا ہو گی۔ ان کو فون ڈائیل کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ وہ آگے بڑھیں، انا اور چور ڈاکو کے خطابات کو ایک طرف رکھیں اور سیاستدانوں سے بات کریں۔‘

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور اہلیہ کے خلاف حقیقات جاری ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ثابت کریں کہ ریاست مخالف نہیں ہیں
ضیغم خان کہتے ہیں کہ حکومت کھونے کے بعد اپنے رد عمل میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور ریاست میں فرق کرنا بھول گئے ہیں۔
’ان کی ناراضگی اسٹیبلشمنٹ سے تھی لیکن انہوں نے پاکستان کی ریاست سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کر لیا۔ وہ سیدھا ریاست پر حملہ آور ہو گئے اور اب ریاست کے غصے کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
ضیغم خان کے خیال میں عمران خان کو اس صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے اس فورم پر اپنے ریاست مخالف نہ ہونے کا ثبوت دینا ہو گا جہاں سے انہیں سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
’فوج ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔ فوج ان کی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے گنجائش پیدا کر رہی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی اہمیت کا اندازہ حقیقت سے زیادہ لگایا (اوور اسٹیمیٹ کیا)۔‘
نادیہ نقی کے مطابق عمران خان نے خود کو تو ’اوور اسٹیمیٹ‘ کیا ہی لیکن انہوں نے کچھ ’انڈر اسٹییمیٹ‘ بھی کیا۔
 ’میرے خیال میں اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ فی الحال عمران خان کے پاس موقع نہیں کہ مراسم بحال کریں۔ وہ اپنے پارٹی اراکین کو روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔‘
 ان کے پاس واحد راستہ سیاستدانوں سے بات کا ہے اور وہ انہیں اختیار کرنا چاہیئے، ہو سکتا ہے ان کے اس عمل سے برف پگھل جائے۔

شیئر: