Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی طلبہ حصولِ تعلیم کے لیے امریکہ جانے میں تذبذب کا شکار کیوں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب سماجی اور سکیورٹی عوامل کی وجہ سے بدل رہا ہے۔ (فوٹو: سپلائیڈ)
اپنے بچوں کو بہترین تعلیم حاصل کرتے دیکھنا ہر والدین کا خواب ہوتا ہے جبکہ ہر نامور ادارے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے پاس زیر تعلیم بین الاقوامی طلبہ کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو۔
تاہم، آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں مختلف عوامل طلبہ اور والدین کے لیے فیصلہ سازی کے عمل کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق والدین کو وبائی امراض سے لے کر امریکہ میں سکول کیمپس میں فائرنگ کے رجحان تک بہت سے مسائل کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
جیسے جیسے تعلیمی منظر نامے میں تبدیلی آئی ہے کچھ مغربی اداروں نے خلیجی خطّے سمیت بیرونی ممالک میں ایسے طلبہ کے لیے اپنی شاخیں کھولی ہیں جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتے یا اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
آج کل سعودی عرب سمیت دیگر عرب والدین کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنے بچوں کو امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجنے سے پہلے اچھی طرح سے سوچ بچار کرتے ہیں۔
امریکہ دنیا کے چند معتبر تعلیمی اداروں اور تحقیقی مراکز کا گھر سمجھا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور سکیورٹی عوامل کی وجہ سے قدرے بدلنا شروع ہو گیا ہے۔
’اگر آپ دیکھیں (سعودی اور دیگر خلیجی خطوں کے طلبہ کی تعداد) مثال کے طور پر 10 برسوں میں، یہ بدل گیا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد تو صورتحال بدل گئی ہے۔‘
تعلیم کی حکمت عملی کے ماہر دالا کاکوس نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’تعداد میں کوئی (بہت زیادہ) نمایاں کمی نہیں ہے لیکن کمی ضرور ہے۔‘
دالا کاکوس جنہوں نے ابوظہبی میں ورلڈ بینک اور ایگزیکٹیو کونسل اور دبئی میں نالج اینڈ ہیومن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ ’اگرچہ تحفظ اور سکیورٹی کا احساس طلبہ اور والدین کے لیے سب سے اہم عنصر نہیں ہے تاہم یہ ترجیحات میں سے ایک ہے۔‘

امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے سعودیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں تاہم یہ لاکھوں میں ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)

سعودی کالم نگار طارق المعینا کا بھی خیال ہے کہ امریکہ میں سعودی طلبہ کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اعداد و شمار اور معلومات حالیہ برسوں میں مشاہدے، دوستوں اور جاننے والوں کی بڑی تعداد سے بات چیت سے اکٹھی کی ہیں۔ پہلے ہی کچھ سعودی طلبہ (بدقسمتی سے) امریکہ میں مجرموں کے ہاتھوں المناک انجام کو پہنچے۔‘
رواں سال جنوری میں 25 سالہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم الولید الغریبی کو فلاڈیلفیا میں ان کی رہائش گاہ میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
2018 میں 23 سالہ آرکیٹیکچر کے طالب علم یاسر ابو الفراج کو فلوریڈا میں اپنے اپارٹمنٹ میں قتل کیا گیا تھا۔
دو سال قبل 24 سالہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم حسین سعید النہدی کو وسکونسن میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دہائی میں سعودی طلبہ کے قتل کے دیگر واقعات آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور ملائیشیا میں رپورٹ ہوئے۔
اس وقت امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے سعودیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں تاہم یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔
امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے سعودیوں کی تعداد 2007 میں 10 ہزار  سے بڑھ کر 2015 میں ایک لاکھ 20 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

سعودی کالم نگار طارق المعینا کا بھی خیال ہے کہ امریکہ میں سعودی طلبہ کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ (فوٹو: سپلائیڈ)

سعودی عرب امریکہ میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کے سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے جبکہ عالمی سطح پر چین اور انڈیا سرفہرست ہیں لیکن اب یہاں بھی صورتحال بدل رہی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کے مطابق 2018-2019 کے تعلیمی سال میں امریکی کالجوں میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں صرف 0.5 فیصد اضافہ ہوا۔
فارن پالیسی کی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی کوریا، جاپان، ایران، برطانیہ اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے بھی پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال امریکہ میں کم طلبہ بھیجے۔‘
2016 میں سعودی حکومت کی جانب سے اپنے سکالرشپ پروگرام کا دوبارہ جائزہ لینے کے فیصلے کے بعد امریکہ میں سعودی طلبہ کی تعداد کم ہو گئی۔

شیئر: