Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بہتری تاہم ’حالات چار ماہ پہلے جیسے ہی ہیں‘

اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر دو روپے کی کمی کے ساتھ 306 روپے 15 پیسے کی سطح پر ٹریڈ کر رہا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں کاروباری ہفتے کے دوسرے روز منگل کو اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری رپورٹ کی جا رہی ہے۔
فاریکس ڈیلرز کے مطابق کاروباری اوقات کے پہلے حصے میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت میں تقریباً دو روپے تک کی کمی رپورٹ کی گئی۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت کے بعد سٹیٹ بینک کی پالیسی میں تبدیلی کے باعث اوپن بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں کمی رپورٹ ہو رہی ہے۔
تاہم یہ بھی وقتی نظر آرہی ہے۔ گذشتہ ہفتے ڈالر کی قیمت میں 14 روپے کمی رپورٹ ہونے کے بعد 6 روپے کا اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
فاریکس ڈیلرز کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق منگل کے روز کاروبار کے پہلے ہفتے میں انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر معمولی اضافے کے ساتھ 286 روپے 15 پیسے کی سطح پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر دو روپے کی کمی کے ساتھ 306 روپے 15 پیسے کی سطح پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ کریڈیٹ کارڈ کی ادائیگیاں اب ایکسچینج کمپنیز کے بجائے بینک کریں گے۔
اس فیصلے کے بعد سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس سے قبل ایکسچینج کمپنیز کریڈٹ کارڈ کی ادائیگیاں بینک کو کیا کرتی تھی۔
ایکسچنیج کمپنیز کا 80 فیصد کاروبار اس سسٹم کے تحت چلتا تھا، تاہم اب پالیسی میں تبدیلی کی گئی ہے تاکہ ملک میں ڈالر کی قدر میں استحکام لایا جا سکے تو ہم نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس صورت حال میں انتظامیہ کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ملک میں گرے مارکیٹ تیزی سے پروان چڑھی ہے.

ماہرین کے مطابق ’سرمایہ کار اب بینکوں میں پیسہ رکھ کر منافع لینے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس صورت حال میں اگر اسے موثر انداز میں مانیٹر نہیں کیا جاتا تو باقی کا سرمایہ بھی گرے مارکیٹ کی نذر ہوجائے گا اور حکومت کی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہوئی ہے۔‘
’اس کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط پوری ہونے کے باوجود بھی پاکستان میں پیسے نہیں آئے جس کا اثر ملکی کرنسی پر نظر آرہا ہے۔‘
معاشی امور کے ماہر سینیئر صحافی وکیل الرحمان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں ڈالر کی قیمت انٹربینک مارکیٹ اور اوپن مارکیٹ میں تیزی سے کم زیادہ کیوں ہو رہی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ حالات اب بھی چار ماہ پہلے جیسے ہی ہیں، نہ آئی ایم ایف سے پیسے آئے ہیں، نہ ہی ترسیلات زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی برآمدات ایسی ہو رہی ہے کہ ملکی کرنسی کو سہارا مل سکے۔
وکیل الرحمان کے مطابق ’پاکستان میں ایک مستقل اور مضبوط پالیسی کا فقدان نظر آتا ہے۔ سرمایہ کار اب کاروبار میں پیسہ لگانے کے بجائے بینکوں میں پیسہ رکھ کر منافع لینے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔‘

ماشی ماہرین کہتے ہیں کہ ’ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ملک میں گرے مارکیٹ تیزی سے پروان چڑھی ہے‘ (فائل فوٹوُ: اے ایف پی)

’ایسے میں معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا جب تک ملک میں سرمایہ کاری نہیں بڑھے گی اور درآمدی بل میں کمی کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک پاکستانی روپیہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قرض سے معاشی صورت حال کو عارضی سہارا تو دیا جا سکتا ہے لیکن سود کے ساتھ ادائیگی کے لیے آمدنی بڑھانی ضروری ہے اور گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان اس میں ناکام رہا ہے۔‘
’قرض لی گئی رقم سے وقتی طور پر خزانے میں بہتری دیکھی گئی تاہم چند ماہ میں پہلے سے بُرے حالات ہوگئے۔‘
وکیل الرحمان کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ایک مضبوط اور پرسکون ماحول فراہم کیا جائے تاکہ سرمایہ کاروں کو اعتماد بحال ہو اور ملک میں سرمایہ کاری ہوسکے۔‘

شیئر: