Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوڈان میں طول پکڑتے بحران پر ماہرین کا تجزیہ

سوڈان کی سیاسی سمت کے تعین میں اخوان المسلمون کا کردار بھی ہو سکتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز
سوڈان میں مسلح افواج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورس میں جاری آپسی تنازع میں اخوان المسلمون کا کردار ماہرین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ملک کے فوجی رہنماؤں پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور سوڈان کی سیاسی سمت کا تعین بھی کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ سوڈان کی سیاست میں گہری جڑیں رکھنے والی بین الاقوامی اسلامی تنظیم کے طور پر اخوان المسلمون نے 1989 میں عمر بشیر کی سابق اسلام پسند حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
2019 میں سوڈان حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد بھی اخوان نے ثابت قدمی جاری رکھی۔ اب سوڈانی مسلح افواج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان لڑائی کے پس منظر میں کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ گروپ واپسی کی کوشش کر سکتا ہے۔
کئی دہائیوں کے دوران اخوان سیاسی اسلام اور سماجی انصاف کی وکالت کے ذریعے سوڈانی معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان حمایت پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اپنی حکمرانی کے دوران اسلام پسندوں نے شرعی قانون کا نفاذ کیا ایک ایسا اقدام جسے آبادی کے ایک بڑے حصے نے مسترد کر دیا جو عیسائیت اور دیگر مقامی عقائد کے ماننے والے تھے جس سے خطرناک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
بعدازاں 2019 میں اسلامی حکومت کا زوال ایک اہم موڑ تھا تاہم سوڈان کی فوجی قیادت پر اس کے دیرپا اثر و رسوخ سے متعلق خدشات برقرار ہیں۔

اخوان کا اثرورسوخ سابق حکومت سے وابستہ مختلف یونٹوں کے ذریعے جاری رہا جن یونٹوں پر عوامی زندگی میں ان کے بڑھتے ہوئے کردار کے جواب میں خواتین کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
سوڈان کے جمہوری مستقبل میں اسلام کے کردار کے مختلف تصورات نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر پھوٹ ڈالی ہے جس سے اخوان کو فائدہ اٹھانے کے لیے نئے ممکنہ حلقے مل رہے ہیں۔
مسلح افواج کے سربراہ اور سوڈان کے موجودہ ڈی فیکٹو حکمران عبدالفتاح البرہان اور سوڈان پیپلز لبریشن آرمی کے سربراہ عبدالعزیز الحلو کے درمیان 2021 کے معاہدے کے بعد مذہب کو الگ کرنے کے لیے اور ریاست، نیشنل امہ پارٹی کے اندر ایک فرقہ ابھرا۔

پارٹی قیادت نے اس بحث کو عبوری دور کے اختتام تک ملتوی کرنے کا مشورہ دیا جب سوڈان کے فوجی حکمرانوں سے سویلین زیرقیادت حکومت کے اقتدار سنبھالنے کی توقع تھی تاہم اسی وقت مذہبی امور کے وزیر نصر الدین مفریح  نے جو خود نیشنل امہ پارٹی کے رکن تھے، مذہبی بنیاد پر سیاسی جماعتوں پر پابندی کے لیے قانون سازی شروع کی۔
دریں اثناء نیشنل امہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل الوثیق البیریر نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی جماعت مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی تھی۔
کئی برسوں کے دوران بہت سے اسلام پسندوں نے اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیا اور سیاسی بائیں بازو کے خلاف 'فرقہ وارانہ' جماعتوں کی حمایت پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ نیا نقطہ نظر ان کی کمزور پوزیشن اور سابقہ ​​اہداف کے حصول میں ان کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔

شیئر: