Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کی جانب سے مذہبی منافرت کے خلاف عالمی قرارداد کا خیرمقدم

یہ قرارداد سویڈن میں قرآن کے نسخے جلائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب نے بدھ کو یورپ میں قرآن جلائے جانے کے واقعات کے تناظر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مذہبی منافرت کو روکنے کے لیے مزید اقدامات پر زور دینے سے متعلق قرارداد کا خیرمقدم کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ قرارداد سویڈن میں قرآن کے نسخے کو جلائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے۔
اس میں ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ’ وہ ایسی کارروائیوں اور مذہبی منافرت کی وکالت سے نمٹنے کےلیے قانونی کارروائی کریں جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد کو اکساتی ہیں‘۔
سعودی عرب نے بیان میں کہا کہ ’اس قرارداد کی منظوری جو مملکت اور دنیا کے متعدد ملکوں کے پرزور مطالبات کے بعد سامنے آئی ہے۔ مذاہب اور ثقافتوں کے احترام کے اصولوں اور انسانی اقدار کے فروغ کے لیے بین الاقوامی قوانین کی ضمانت ہے‘۔
بیان میں سعودی عرب نے عندیہ دیا کہ’ وہ مکالمے، رواداری اور اعتدال کی سپورٹ میں اپنی تمام کوششیں جاری رکھے گا۔ نفرت اور انتہا پسندی پھیلانے کی تمام کارروائیوں کو مسترد کرتے ہیں‘۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے سویڈن میں قرآن مجید نذرآتش کرنے کے واقعے پر کہا تھا کہ ’وہ ان لاکھوں افراد سے بے حد ہمدردی رکھتے ہیں جن کے عقائد اور اقدار کو نشانہ بنایا گیا‘۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق والکر ٹرک کا کہنا تھا کہ ’قرآن مجید کو جلانے سمیت دیگر واقعات غصے کو بھڑکانے، تفرقہ پیدا کرنے اور نقطہ نظر کے اختلاف کو نفرت اور تشدد میں بدلنے کے لیے کیے جاتے ہیں‘۔
جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 53 ویں سیشن میں قرآن مجید جلانے کے واقعے اور مذہبی منافرت کے مسئلے پر بحث ہوئی تھی۔
والکر ٹرک کا کہنا تھا کہ ’مذہبی علامتیں بہت گہری اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ایک ہلال، ایک ستارہ، ایک کراس، ایک بیٹھی ہوئی شخصیت: کچھ کے لیے، یہ خاص معنی نہیں رکھتیں لیکن لیکن لاکھوں لوگوں کے لیے ان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔‘
’سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا خاص کردار ہوتا ہے کہ وہ تمام مقدس مقامات اور علامتوں کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے جارحانہ کارروائیوں کو روکیں۔
’ان سب کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اشتعال انگیزی کے ذریعے تشدد کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا چاہے وہ حقیقی ہو یا فرضی۔‘
بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر زور دیتے ہوئے، والکر ٹرک کا کہنا تھا کہ ریاستوں کو قومی، نسلی یا مذہبی منافرت جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد پر اکساتی ہو پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔
’تاہم آزادی رائے اور اظہار رائے کی بالادستی کے حق پر کسی بھی قومی پابندی کو وضع کیا جانا چاہیے تاکہ ان کا واحد مقصد افراد کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو، بجائے اس کے کہ مذہبی نظریے کو تنقیدی جائزے سے بچایا جائے۔‘
انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا تھا کہ’ وہ مذہب یا عقائد کی بنیاد پر عدم رواداری کا مقابلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ایکشن پلان پرعمل درآمد کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھائیں‘۔

شیئر: