Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونان کشتی حادثہ، لواحقین ابھی تک اپنے پیاروں کی موت کا یقین کیوں نہیں کر پا رہے؟

یونان میں کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کے خاندان ابھی تک اپنے پیاروں کے زندہ واپس لوٹ آنے کے منتظر ہیں۔ ایجنٹس مافیا کی فیک کالز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی فیک خبروں نے لواحقین کو اپنے پیاروں کی موت کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرنے دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی تک لواحقین کی بڑی تعداد نے اپنے پیاروں کی آخری رسومات کی ادائیگی نہیں کی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں نور جمال سے تعلق رکھنے والے یونان کشتی حادثہ کا شکار دو نوجوانوں کی جمعے کو دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔
لواحقین آخری رسومات سے کیوں گریزاں ہیں؟
جب بھی متاثرہ نوجوانوں کے اہل خانہ یا عزیز و اقارب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ آخری رسومات کیوں ادا نہیں کر رہے تو جواب کچھ یوں ہوتا ہے کہ ’ہم اپنے گھر پر فاتحہ خوانی اس لیے نہیں کر رہے کہ شاید کوئی معجزہ ہو ہی جائے۔‘
دوسری وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ چونکہ ایک ہی گاؤں کے 12 لوگ اس سانحے کا شکار ہوئے تو فاتحہ خوانی میں پہل کون کرے؟ اہل خانہ اس معاملے پر بھی تذبذب کا شکار ہیں۔
گاؤں نورجمال سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں عمران حیات اور میاں بوٹا کے اہل خانہ نے تقریباً ایک ماہ بعد ان کے لیے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جس میں ان کے عزیز و اقارب نے شرکت کی۔
عمران حیات کے اہل خانہ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے بچ جانے والے کچھ افراد سے رابطہ کیا اور انھیں تصویر بھیجی۔ جواب میں ہمیں تصدیق کی گئی کہ عمران حیات کشتی حادثے سے پہلے ہی سفر کی تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور دم گُھٹنے کے باعث جان کی بازی ہار گئے تھے۔‘

لواحقین کی بڑی تعداد نے اپنے پیاروں کی آخری رسومات کی ادائیگی نہیں کی (فوٹو: روئٹرز)

لواحقین کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد ہم نے اللہ کی رضا قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ دعا کرا دی جائے شاید اس سے بوڑھے والد اور بیوی بچوں کو صبر آ جائے۔‘
عمران حیات کی دعائے مغفرت ہوئی تو میاں بوٹا کے اہل خانہ نے بھی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دعا کا اہتمام کیا۔
ان کے علاوہ گاؤں کے 10 دیگر نوجوان بھی اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں تاہم ان کے اہل خانہ منتظر ہیں کہ کوئی ان کے پیاروں کے زندہ بچ جانے کی خوش خبری سنا دے یا وہ خود رابطہ کر کے اپنے خیریت سے آگاہ کر دیں۔

’امید و نا امیدی کی ملی جلی کیفیت ہے‘

پانچ بچوں کے والد 45 سالہ افضل حیات بھی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے مسافر تھے۔ ان کے اہل خانہ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے سنا ہے کہ ایک بندے کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر دی گئی تھی لیکن وہ زندہ نکل آیا۔ اس طرح ہمارے کسی عزیز کے ہاں کال موصول ہوئی ہے کہ ان کا بچہ زندہ ہے اور یونان کے کسی ہسپتال میں ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ شاید اللہ کرم کر دے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’سچ پوچھیں تو ہم دیکھ رہے کہ گاوں میں اور کوئی بھی فاتحہ خوانی کرواتا ہے یا نہیں۔ جن افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اس کا نام بھی شامل نہیں تو بس دل اُمید اور نا امیدی کی ملی جلی کیفیت میں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے عزیز سمیت کسی بھی فرد نے اس حادثے کا شکار ہونے والوں میں سے کسی کی لاش تک نہیں دیکھی۔ لاش دیکھ لیتے تو یقین آ جاتا، اُمید ختم ہو جاتی۔‘
افضل حیات کے دو اور رشتے دار بابر علی اور شمریز اختر بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ شمریز اختر کے ماموں آصف حیات نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’اندھیرے میں ٹکریں مار رہے ہیں۔ اِدھر اُدھر سے کسی نہ کسی کے زندہ بچ جانے کی خبر آتی ہے تو پھر اُمید جاگ اُٹھتی ہے۔‘

یونان میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق یونانی حکام نے گذشتہ جون میں کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے 16 پاکستانیوں کی شناخت ظاہر کی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)

انھوں نے بتایا کہ ’پھالیہ میں ایک عزیز کو کال آئی کہ یونان کے ایک ہسپتال میں 180 پاکستانی زیر علاج ہیں لیکن انہیں وہاں کسی سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ سمندر کا پانی حلق میں جانے کی وجہ سے وہ بولنے کے قابل بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ کہیں ہمارے عزیز بھی ان 180 افراد میں شامل نہ ہوں۔‘

جھوٹی خبریں کون پھیلا رہا ہے؟

اس سانحے کے فوراً بعد یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی نے کچھ افراد کو مالٹا کے ساحل پر اُتارا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ حادثے میں لوگوں کو بچا لیا گیا ہے لیکن اُنہیں چھپایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی کے رہائشی حسیب الرحمان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ یہ سب پروپیگنڈہ ہے۔
’حادثے میں کُل 12 پاکستانی ہی بچے تھے جن کی شناخت ہو چکی ہے۔ کشتی نے کسی مسافر کسی جگہ پر نہیں اُتارا تھا۔ ایجنٹ لواحقین کو ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں مدعی بننے سے روکنے کے لیے جھوٹی کالز کروا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سچ ہے کہ 300 سے زائد پاکستانی لاپتہ ہیں اور جو لاشیں ملی ہیں وہ قابلِ شناخت نہیں۔‘
یونان میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق یونانی حکام نے گذشتہ ماہ جون میں کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے 16 پاکستانیوں کی شناخت ظاہر کی تھی۔ جن افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے ان کا تعلق گجرات، منڈی بہاالدین، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، وہاڑی، راولپنڈی اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع میرپور سے تھا۔
سفارت خانے کے مطابق مجموعی طور پر 79 لاشیں ملی تھیں جن میں ایک بھی قابلِ شناخت نہیں تھی۔ جن لاشوں کی شناخت ممکن ہے وہ ڈی این اے کے ذریعے ہوئی ہے۔ سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ 350 پاکستانی حادثے کا شکار ہوئے تھے جن میں سے صرف 12 ہی زندہ بچ سکے۔‘

یونان میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق مجموعی طور پر 79 لاشیں ملی تھیں جن میں ایک بھی قابلِ شناخت نہیں تھی (فوٹو: اے ایف پی)

’ایجنٹ ابھی بھی لواحقین کو گمراہ کر رہے ہیں‘

گجرات سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر اور ماہر تعلیم یوسف جمالی نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ورثا کو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس خبر کا باوثوق ذریعہ نہیں۔ سفارت خانے کی معلومات اپنی جگہ لیکن افواہیں ان معلومات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوسری جانب لواحقین اس حادثے کی نوعیت کو سمجھ ہی نہیں پا رہے اور وہ اسے اجتماعی کے بجائے انفرادی نقصان سمجھ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ میڈیا سے بات کرنے اور ایجنٹوں کے بارے میں تفصیلات دینے سے گریزاں ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس سانحے کے بعد سرکاری اداروں نے بھی ان لواحقین کی خاطر خواہ داد رسی نہیں کی۔ اگر قومی ادارے داد رسی کرتے تو شاید اب تک صورت حال واضح ہو چکی ہوتی اور ورثا ان اداروں کے ساتھ تعاون بھی کرتے۔‘
یوسف جمالی نے بتایا کہ ابھی تک اس حادثے کے ذمہ داران ان لواحقین کو گمراہ کر کے انھیں اُمیدیں دلا رہے ہیں۔ ’کبھی انھیں کہا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ اس کشتی میں نہیں تھا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں ہے۔ کبھی کسی ہسپتال کی خبر سنا کر اُمید دلائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف ورثا اس سانحے کو تسلیم نہیں کر پا رہے بلکہ ان ایجنٹوں کے بارے میں اداروں کو معلومات دینے سے بھی گریزاں ہیں۔‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ صورت حال ان خاندانوں کو دوبارہ کسی ایسے ہی سانحے سے دوچار کر سکتی ہے۔

شیئر: