Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونان حادثہ: کشتی میں سوار پاکستانیوں کی تعداد 350 تھی، وزیر داخلہ

یونان کے ساحل کے قریب غرق ہونے والی کشتی کے اکثر مسافر ابھی تک لاپتا ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ یونان کے قریب سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں 350 پاکستانی سوار تھے۔
رانا ثنا اللہ نے جمعے کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کشتی میں 400 افراد کی گنجائش تھی لیکن 700 افراد سوار کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک 281 خاندانوں نے حکومت سے رابطہ کیا ہے اور متاثرہ خاندانوں کی معاونت کے لیے الگ ڈیسک قائم کیے جائیں گے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اس معاملے پر کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ ’انسانی سمگلروں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ انسانی سمگلروں کا پچھلے پانچ برس کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔‘
قبل ازیں بدھ کو وزیراعظم ہاؤس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کشتی حادثے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ اب تک 15 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اس واقعے کا مرکزی ملزم بھی شامل ہے۔
خیال رہے کہ 14 جون کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی یونان کے قریب سمندر میں الٹ گئی تھی جس میں متعدد پاکستانی بھی سوار تھے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق ڈوبنے والی کشتی کے بارے میں خوفناک تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ایسے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے اس سانحے میں اپنے کردار کو ’چھپا‘ دیا ہے۔
کشتی میں زندہ بچ جانے والے تارکین وطن نے کوسٹ گارڈز کو بتایا تھا کہ پاکستانی شہریوں کو زبردستی کشتی کے نچلے حصے جبکہ دیگر ملکوں کے شہریوں کو کشتی کے اوپر والے حصہ میں رکھا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں شہریوں کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل سے متعلق معاملے کی سماعت جاری ہے (فوٹو: سکرین گریب)

آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کا معاملہ، ’دونوں وکلا پہلے عمران خان اور پھر چیف جسٹس کو ملے‘

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں شہریوں کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے خلاف پٹیشن لانے والے دونوں وکلا پہلے عمران خان اور پھر چیف جسٹس سے ملے ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ہمارے دو معزز ترین وکلاء جو کل یہ (آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل ست متعلق) پٹیشن لے کر آئے ہیں۔ ان وکلاء نے سیاست اور وکالت میں اہم کردار ادا کیا لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت اتنی اچھی نہیں ہے۔‘
’وہ دونوں صاحبان عمران خان کو زمان پارک لاہور میں ملے۔ اس کے بعد یہ چیف جسٹس کو ملے، یہ مصدقہ اطلاعات ہیں۔‘
’اور یہ بات ایسے ثابت ہوتی ہے کہ جب کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تو ان دنوں وکلا صاحبان نے ان کی منتیں کرنا شروع کر دیں کہ آپ بیٹھیں، آپ کی رائے آنی چاہیے۔‘

شیئر: