Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکھر میں پسند کی شادی کرنے پر ڈاکوؤں نے پورا گاؤں یرغمال بنا لیا

سکھر میں پسند کی شادی کرنے پر دو برادریوں کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا۔ فوٹو: سندھ پولیس ٹوئٹر
فلمی طرز پر ایک سو سے زائد موٹر سائیکل سوار مسلح افراد سکھر کی تحصیل پنو عاقل پہنچے، علاقے میں ہوائی فائرنگ کی اور کئی گھنٹوں تک گاؤں میں موجود رہنے کے بعد واپس جاتے ہوئے اپنے ہمراہ ایک بچی اور خواتین کو لے گئے۔
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے علاقے سکھر میں پسند کی شادی سے شروع ہونے والا دو برادریوں کا تنازع اس حد تک شدت اختیار کر گیا کہ بات قتل اور اغوا تک پہنچ گئی۔
مسلح افراد پولیس کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ضلع سکھر کے سانگھی پولیس سٹیشن کے باہر ہوائی فائرنگ کرتے رہے اور موبائل فون سے ویڈیوز بھی بناتے رہے، لیکن پولیس کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ 
واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیوز شئیر کی گئیں جس میں مسلح افراد آزادنہ طور پر پولیس سٹیشن سمیت گاؤں میں ہوائی فائرنگ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 
پنو عاقل کے رہائشی آصف سولنگی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سندھ کے ضلع سکھر کی تحصیل پنو عاقل سمیت ارد گرد کے علاقوں میں صورتحال اب بھی کشیدہ ہے، مہر اور کلہوڑو برادریوں کے درمیان ایک پسند کی شادی سے شروع ہونے والا تنازع اب پورے ضلع پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر انتظامیہ باکل خاموش ہے۔
سینکڑوں کی تعداد میں مسلح افراد کئی گھنٹوں تک گاؤں میں موجود رہے، لوٹ مار کی دو افراد کو قتل کیا اور گاؤں سے خواتین کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ متعدد بار پولیس سے رابطے کرنے کی کوشش پر بھی کوئی مدد کو نہ پہنچا۔
آصف سولنگی کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے پولیس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گاؤں سے جاتے وقت پولیس سٹیشن کے باہر بھی ہوائی فائرنگ کی۔ پولیس اہلکار ان کو روکنے کے بجائے اپنے تھانے کی کھڑکی اور دروازے بند کر کے اندر چھپے رہے۔
دو افراد کے قتل کے بعد کلہوڑو برادری نے 9 گھنٹوں تک لاشوں کے ہمراہ پنو عاقل ہائی وے پر احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے بعد پولیس نے آپریشن کر کے اغوا کی گئی خواتین کو بازیاب کروایا۔

مسلح افراد نے سانگھی پولیس سٹیشن کے باہر ہوائی فائرنگ کی اور موبائل فون سے ویڈیوز بنائیں۔ فوٹو: سندھ پولیس ٹوئٹر

انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ ایک پسند کی شادی کا معاملہ ہے لیکن اس کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد نے اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔ 
سندھ اور پنجاب کے درمیان کچے کے علاقے میں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کا راج ہے۔ ان علاقوں میں لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور قتل کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں۔
ان علاقوں میں بسنے والوں کا ماننا ہے کہ بااثر افراد کی سرپرستی کی وجہ سے یہ جرائم پیشہ افراد ان علاقوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول اور دشمن پر وار کرنے کے لیےان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ 
سندھ کے کون سے علاقے اس وقت متاثر ہیں؟
سندھ میں کچے کے علاقوں کے قریب بسنے والے افراد اس وقت بری طرح سے متاثر ہیں۔ ان علاقوں میں سکھر، گھوٹکی، شکارپور، دادو، کندھ کوٹ سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
ان علاقوں میں کاروبار کرنے والے افراد ہوں یا پھر یہاں سے سفر کرنے والے، اکثر ہی ڈاکوؤں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ڈاکوؤں کو مذہبی معاملات میں بھی دخل اندازی کرتا دیکھا گیا ہے۔ جس کی تازہ مثال پاکستان سے انڈیا جانے والی لڑکی کی واپسی کے مطالبے پر ایک مذہبی مقام پر حملہ ہے۔ 
کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے کیا نتائج نکلے؟
حکومت پنجاب اور سندھ کئی بار اپنے اپنے صوبے میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کر چکی ہے۔ دونوں ہی حکومتوں کی جانب سے کامیابی کے دعوے تو بہت کیے گئے ہیں لیکن اب تک دونوں صوبوں میں ان افراد کی موجودگی برقرار ہے۔ اور ان کی جانب سے کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 
سندھ پولیس کی جانب سے کچے کے علاقے میں آپریشن کے لیے موثر حکمت عملی تیار کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں پولیس کو جدید ہتھیار، اضافی الاؤنس سمیت دیگر سہولیات فراہم بھی کی گئی ہیں لیکن نتائج اب بھی پہلے سے مختلف نہیں ہیں۔ صوبے کے متاثرہ علاقوں میں اب بھی ڈاکو آزادانہ طور پر گشت کرتے ہیں اپنی کارروائیاں کرتے ہیں اور باآسانی قانون کی گرفت سے نکل جاتے ہیں۔ 

سندھ اور پنجاب کے درمیان کچے کے علاقے میں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کا راج ہے۔ فوٹو: سندھ پولیس ٹوئٹر

سندھ کے ضلع سکھر میں کھلے عام اسلحہ لے کر گاؤں کو یرغمال بنانے کے معاملے پر ضلع کے اعلیٰ پولیس افسران سے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود ان کی جانب سے موقف نہیں دیا گیا۔  
یاد رہے کہ سندھ میں کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا تھا جس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کچے کے علاقوں میں اغوا برائے تاوان کے بڑھتے واقعات پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ 
وزیر اعلیٰ سندھ کو آئی جی پولیس نے کام میں پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے صوبے میں پولیس کے افسران کی تعیناتی سمیت دیگر معاملات میں اختیار مانگا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے آئی جی سندھ کو صوبے میں ہنگامی بنیادوں پر صورتحال کو بہتر کرنے کا ٹاسک دیا تھا اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کوتائی برتنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا بھی فری ہینڈ دیا تھا۔

شیئر: