Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصالحت کار جنگ بندی کے تازہ منصوبے پر اسرائیلی ردعمل کے منتظر

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تاحال اس منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
مصالحت کار قطر اور مصر غزہ میں جنگ بندی کے  تازہ منصوبے پر اسرائیلی ردعمل کے منتظر ہیں، خیال رہے ایک دن قبل حماس نے اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی، جس کا مقصد تقریباً دو سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔
فریقین نے جنگ کے دوران وقفے وقفے سے بالواسطہ مذاکرات کیے ہیں، جن کے نتیجے میں دو مختصر جنگ بندیاں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم مستقل اور پائیدار پائیدار جنگ بندی کے لیے یہ کوششیں ناکام رہیں۔
یہ کوششیں مصر اور قطر کی ثالثی میں کی گئی ہیں، جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے، اور مختلف مواقع پر سفارتی رابطوں کے ذریعے تعطل ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
مصر نے پیر کو اعلان کیا کہ اس نے اور قطر نے اسرائیل کو نیا منصوبہ بھیج دیا ہے، اور کہا کہ ’اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔‘
مصری کے سرکاری میڈیا کے ادارے  ’القاہرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق، تازہ معاہدہ ابتدائی طور پر 60 دن کی جنگ بندی، جزوی یرغمالیوں کی رہائی، کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور امداد کی فراہمی کی اجازت دینے کی شقوں پر مشتمل ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تاحال اس منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن انہوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کا ملک ایسا معاہدہ قبول کرے گا جس میں تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے اور جنگ کے خاتمے کے لیے ہماری شرائط پر عمل ہو۔
حماس کے سینئر رہنما محمود مرداوی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’حماس نے معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے لیے دروازہ کھول دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نیتن یاہو ایک بار پھر اسے بند کر دیں گے، جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔‘
حماس کی جانب سے تجویز کی منظوری ایسے وقت میں آئی ہے جب نیتن یاہو کو اندرون ملک اور بیرون ملک جنگ کے خاتمے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
اتوار کے روز، اسرائیلی شہر تل ابیب میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر مارچ کیا اور جنگ کے خاتمے اور باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کا مطالبہ کیا۔
حماس کے اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے 49 اب بھی غزہ میں ہیں، جن میں سے 27 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ نیا منصوبہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ شہر اور قریبی پناہ گزین کیمپوں پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دی ہے، جس سے خدشہ ہے کہ یہ نیا حملہ پہلے سے ہی تباہ حال علاقے میں انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دے گا۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے نیشنل سکیورٹی کے وزیر اتمار بن گویر، جو جنگ کے خاتمے کے سخت مخالف ہیں، نے اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ’نیتن یاہو حماس کے سامنے جھک گئے تو یہ ایک سانحہ ہوگا۔‘
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق، منگل کو اسرائیلی حملوں اور فائرنگ سے علاقے بھر میں 27 افراد جان سے گئے۔
ایجنسی کے ترجمان محمود بصل نے کہا کہ غزہ شہر کے زیتون اور صبرا محلوں میں صورتحال ’انتہائی خطرناک اور ناقابل برداشت‘ ہے، جہاں توپوں کی گولہ باری وقفے وقفے سے جاری ہے۔
اسرائیلی فوج نے مخصوص فوجی نقل و حرکت پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ وہ ’حماس کی عسکری صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہےاور شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے قابل عمل احتیاطی تدابیر اپنائی جا رہی ہیں۔‘
غزہ میں میڈیا پر پابندیوں اور فلسطینی علاقے کے وسیع حصوں تک رسائی میں مشکلات کی وجہ سے اے ایف پی آزادانہ طور پر سول ڈیفنس یا اسرائیلی فوج کی فراہم کردہ تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکی۔
اسرائیل کے حملے میں اب تک 62,004 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں غالب اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

شیئر: