Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی ’لکڑیوں اور ریت کے لیے لڑائی‘

خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں حالیہ سیلاب کے باعث مکانات، فصلیں اور بنیادی ڈھانچہ ملیا میٹ ہو گیا ہے تاہم اس قدرتی آفت کے بعد ایک اور خطرناک رجحان مشاہدے میں آیا ہے، اور وہ یہ کہ مقامی لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ندیوں سے لکڑیاں اور ریت جمع کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق لوگ نہ صرف اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ امدادی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
حالیہ کلاؤڈ برسٹ سے پہلے بھی ضلع شانگلہ اور ضلع بونیر کی ندیوں میں درمیانے درجے کا سیلاب آتا رہا ہے اور معمولی بارش کے بعد پانی میں طغیانی بھی آتی رہی ہے۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر شفیق احمد کمبوہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر مقالے لکھ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سیلابی صورتحال کی شدت میں ماحولیاتی تبدیلی ایک بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ اس حوالے سے مزید بتاتے ہیں کہ ’اس کے ساتھ ساتھ غربت بھی ایک اہم وجہ ہے۔ لوگ غربت کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہیں کہ وہ تباہی کے باوجود روزی روٹے کے لیے خطرناک اقدامات کر رہے ہیں۔ جان کی پرواہ کیے بغیر وہ ندیوں میں اترتے ہیں، لکڑیاں اور ریت جمع کرتے ہیں حالانکہ اس کے پیچھے پورا خاندان ہوتا ہے جو ان کے اس عمل سے متاثر ہوسکتا ہے۔‘
بونیر کا علاقہ گوکند حالیہ سیلاب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ گوکند درہ سے تعلق رکھنے والے عدنان خان امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ وہ اس صورتحال کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’لوگ لکڑیوں اور ریت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ایندھن کے لیے لکڑیاں اور فرنیچر کے لیے ٹمبر جمع کیا جا رہا ہے۔ اس دوڑ میں لوگوں کے درمیان لڑائیاں بھی ہو رہی ہیں۔‘
عدنان کے مطابق جن لوگوں کا نقصان کم ہوا یا بالکل نہیں ہوا وہ اس سرگرمی میں زیادہ متحرک ہیں جس کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ’امدادی سامان کی فراہمی وافر مقدار میں ہو رہی ہے لیکن یہ زیادہ تر غیر مستحق افراد کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ گاؤں کے لوگ امدادی سامان لینے کے لیے جاتے ہیں جبکہ متاثرین کی مدد یا قبر کی کھدائی جیسے کام باہر سے آنے والے رضاکاروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘

بونیر میں بڑے بڑے پتھروں سے لوگوں کے گھر تباہ ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شانگلہ کی تحصیل پورن سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے رہائشی دایان غفار اس صورتحال کو اور واضح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’لوگ نہ صرف لکڑیاں جمع کر رہے ہیں بلکہ ریت پر قبضے کے لیے بھی خطرناک مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہاں ایک روایت ہے کہ جو شخص ریت پر سب سے پہلے بیلچہ مار دے، وہ ریت اس کی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح لوگ پانی کے تیز بہاؤ میں جا کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر لکڑیاں جمع کرتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔‘
دایان کے مطابق جب پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے تو لوگ جلد بازی میں ندیوں کی طرف دوڑتے ہیں تاکہ ریت یا بڑے پتھروں پر قبضہ کر سکیں جو تعمیرات میں استعمال ہوتے ہیں۔
ان کے بقول ’اس عمل سے ندیوں کے کناروں پر گڑھے بن جاتے ہیں جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے سڑکیں خراب ہو رہی ہیں، گاڑیاں ڈوب رہی ہیں، اور کبھی کبھار لوگ بھی ان گڑھوں میں گر کر زخمی ہو رہے ہیں۔‘
ماہرین اور مقامی امدادی کارکن اس بات پر متفق ہیں کہ اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

حالیہ بارشوں سے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر شفیق کمبوہ تجویز دیتے ہیں کہ ریاست کو ان وسائل کو اپنی تحویل میں لے کر ان کا مناسب استعمال کرنا چاہیے۔ ’ریاست کو ندیوں سے لکڑی اور ریت جیسے وسائل پر قبضہ کر کے انہیں منظم طریقے سے نیلام کرنا چاہیے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی متاثرین کی بحالی کے لیے استعمال ہو سکے۔ یہ ریاست کی ملکیت ہے اس پر لڑائی جھگڑے کرنا اور غیرمنصفانہ طریقے سے قبضہ کرنا خطرناک عمل ہے۔‘
ڈاکٹر شفیق مزید بتاتے ہیں کہ لوگوں میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے محفوظ طریقے سے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو پر توجہ دیں۔
’خیبر پختونخوا کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں لکڑی اور ریت کے لیے یہ دوڑ ایک معاشرتی رجحان کی طرف اشارہ ہے۔ غربت، لالچ اور آگاہی کی کمی کس طرح ایک قدرتی آفت کے اثرات کو مزید سنگین بنا سکتی ہے اس کے لیے لوگوں کا یہ رویہ ہی دیکھ لیا جائے۔ حکومتی اداروں، مقامی رہنماؤں اور معاشرے کو مل کر اس خطرناک کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں اور امدادی سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکیں۔‘

شیئر: