Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کی ترقی کا ماڈل ایران میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے

مشرق وسطیٰ اس وقت متوازی مقابلے کے ایک نئے دور سے گزر رہا ہے۔ اس حریفانہ مسابقت کا مرکز یقین اور پُرکشش ہونا ہے یا جسے گورننس اور ترقی کا پرکشش ماڈل کہا جاتا ہے، نیز کسی ملک کے انسانی وسائل میں سرمایہ کاری، سعودی عرب نے آٹھ سال سے زائد عرصہ قبل اس ماڈل کا انتخاب کیا تھا۔
گزشتہ تین برس کے دوران، اس گورننس ماڈل کی خصوصیات زیادہ واضح، جامع اور پختہ ہو گئی ہیں، جس کا اظہار مملکت کی جدید کاری، کشادگی، ترقی، آمدنی میں تنوع، اور سماجی بہبود اور معیار زندگی میں بہتری کے ذریعے کیا گیا ہے۔
عرب نیوز میں شائع مضمون کے مطابق یہ درست ہے کہ سعودی عرب میں بہت سے بڑے پیمانے پر اصلاحات، ترقی اور سرمایہ کاری کے منصوبے ابھی درمیانی مرحلے میں ہیں، اس کا پہلا مرحلہ بمشکل اس وقت مکمل ہونا ہے جب ویژن 2030 حاصل ہو گا۔
تاہم مملکت میں پہنچنے والے، سیاحت کرنے والے یا رہنے والے تمام لوگ ابھی سے اس کے بیشتر شہروں میں نمایاں تبدیلیوں اور اس کی وزارتوں اور اداروں کے انتظام میں نئی ​​تکنیکی انتظامی ذہنیت کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبوں، کھیلوں اور سیاحت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور مملکت کی مجموعی اندرونی پیداوار میں غیر کرایہ دار یا ’تیسرے‘ شعبے کے تعاون کو بڑھانے کی کوششوں کے علاوہ ہے۔
مملکت میں ہونے والی ان تبدیلیوں کو پورے خطے کے پرجوش نوجوان بہت قریب سے دیکھ کر اس کی پیروی کر رہے ہیں، خاص طور پر ان ممالک میں بھی جن کے ساتھ مملکت کے تعلقات مثالی سے کم یا یہاں تک کہ کشیدہ رہے ہیں جیسے کہ ایران۔
یہ تبدیلیاں جن کو ہم سعودی ماڈل کہہ سکتے ہیں، نے بہت سے نوجوان ایرانیوں کو متاثر کیا ہے جو پڑوسی ممالک خاص طور پر عرب خلیجی ریاستوں میں ہونے والی اصلاحات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سعودی ماڈل تیزی سے وہ معیار بن گیا ہے جس کو سامنے رکھ کر وہاں کے شہری ایرانی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے ہیں۔
یہ صورت حال سعودی عرب کے بارے میں منفی اور اُن فرسودہ دقیانوسی تصورات کے مسلسل فروغ کے باوجود سامنے آئی ہے جس کے پیچھے قومی یا تاریخی محرکات ہیں۔ سعودی عرب کی کامیابیاں ایرانی قیادت کے اپنے عوام سے کیے گئے بہت سے وعدوں سے بڑھ کر ہیں جو عام طور پر وہاں کی حکومتیں کرتی ہیں مگر زمینی صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
گزشتہ عرصے میں تہران میں حکومتوں نے ایرانی عوام سے بے شمار بڑے بڑے وعدے کیے تاہم اُن کو پورا نہ کیا جا سکا۔ مزید یہ کہ جب بھی بجٹ کا وقت آتا ہے تو ہر ایرانی حکومت مزید وعدے کرتی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی طرح یہ نہ صرف ادھورے رہ جاتے ہیں بلکہ حکومتی اقدامات اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ ایسے وعدوں کے بعد مخالف سمت میں کیے گئے اقدامت کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں اور شہریوں کا معیارِ زندگی ہر سطح پر مزید ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس معاملے پر چند ایرانی شخصیات کی جانب سے ہونے والے تبصروں کا ذکر کرتا چلوں۔ ایسی ہی ایک ممتاز شخصیت علی غنباری ہیں جو سابق قانون ساز، وزارت زراعت کے نائب وزیر اور تربیات مودارس یونیورسٹی میں پروفیسرز  باڈی کے رکن ہیں۔ انہوں نے کہا ’ایران جعلی ترقی کے جال میں پھنس گیا ہے کیونکہ حقیقی ترقی کا مطلب بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا، ملک میں فلاح و بہبود کی تقسیم سمیت اقتصادی و ثقافتی حالات کو بہتر بنانا ہے۔‘
علی غنباری مزید لکھتے ہیں، ’اس دوران، پچھلے پانچ سے چھ سالہ ترقیاتی منصوبوں سے ایسے نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ محض اعداد و شمار جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ محدود اقتصادی ترقی ہوئی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقیت میں بھی ترقی کا ہدف حاصل ہو سکا ہے۔ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں 15 سال پیچھے چلے گئے ہیں، یا محتاط اندازہ بھی لگائیں تو دس سال پیچھے ہیں۔ حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو ہم ترکی اور سعودی عرب جیسے دیگر ہمسایہ ممالک سے 15 سال پیچھے ہیں۔‘
ایک اور ممتاز ایرانی شخصیت اور معاشی ماہر وحید شقاقی شہری کا کہنا ہے، ’سعودی عرب علم کے میدان میں تیسرے دور کا تجربہ کر چکا ہے، علم پر مبنی معیشت میں ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے اور دولت کے اپنے نظام کو تبدیل کر رہا ہے۔ اور اب دولت پیدا کرنے والے ذرائع جیسے ورچوئل، انٹیلجینٹ اور گرین معیشتوں کے علاوہ قابل تجدید توانائی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایران دریں اثنا علم کے دوسرے دور سے گزر رہا ہے اور ہم ایک ایسے وقت میں دوسرے دور کی بنیاد پر صنعتی حالات میں بہتری لانے پر زور دے رہے ہیں جب ہمارے حریف تیسرے دور میں داخل ہو گئے ہیں اور مستقبل میں دولت پیدا کرنے والے نظام کے لیے بھی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔‘
عمل اور محض الفاظ کا فرق واضح کرتے ہوئے پروفیسر ماجد مرادی لکھتے ہیں، ’اتنے سالوں سے ہم مرگ بر امریکہ کے نعرے لگا رہے ہیں اور سعودی عرب کا امریکہ کے ماتحت ہونے پر مذاق اڑاتے رہے ہیں لیکن معاملات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے بجائے ایران، امریکہ کا ماتحت ہو چکا ہے۔ (ہم جنوی کوریا میں اپنے منجمد اثاثے بحال کروانے کے لیے امریکہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس رقم کو سویلین مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔) جبکہ دوسری جانب سعودی عرب امریکہ کی مزاحمت کر رہا ہے اور چین کو مشرق وسطیٰ میں قدم جمانے کی دعوت دے رہا ہے۔‘
معیشت کے تناظر میں پروفیسر مرادی نے لکھا، ’جمہوریہ کے صدر پچھلے دو سالوں سے اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کی زندگی کو امریکہ سے بات چیت پر منحصر نہیں کریں گے۔ لیکن عملاً جوہری معاہدے کے متعلق آنے والی ہر خبر کے مطابق ڈالر کی قدر میں کمی یا اضافہ دیکھنے میں آتا۔ سعودی ریال دوسری جانب مستحکم ہے۔ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل جائے تو بھی سعودی ریال کی قدر متاثر نہیں ہوتی۔‘
مرادی نے مزید کہا کہ ’مضبوط معیشت ہی وہ اہم عنصر ہے جس نے سعودی عرب کو سیاسی آزادی دی، نہ کہ ایسے نعروں نے جو عالمی قوتوں کے خلاف ہوں (امریکہ کو ایرانی حکومت کی جانب سے دیے گئے نام)۔ جس چیز نے ہماری آزادی کو عملی طور پر نقصان پہنچایا ہے وہ کمزور معیشت ہے۔ ہمارے ریال اور سعودی ریال میں یہی فرق ہے۔ ہمارا ریال کمزور پالیسیوں کی وجہ سے کمزور ہے اور دوسری طرف ان کی پالیسیاں مضبوط ریال کی وجہ سے پھل دیتی ہیں۔‘
مستقبل کی منصوبہ بندی پر ایرانی کالم نگار احسان بودغی نے لکھا کہ ’سعودی عرب خو کو نیوم میگا سٹی کے 500 ارب ڈالر کے بڑے منصوبے کے ذریعے تیار کر رہا ہے جو سنہ 2030 تک اپنی آبادی کو 50 فیصد تک بڑھنے پر کام میں آئے گا۔ جبکہ ایران میں پیدائش سے قبل معذوری سے بچاؤ کی سکریننگ کرانے پر پابندی ہے۔ تاہم بہت سے ایرانی قانون ساز سعودی حکمرانوں کو رجعت پسند قرار دیتے ہیں۔‘
ایران میں سوشل میڈیا کے ایک صارف نے کہا کہ ملک میں کیسپیئن انٹرنیشنل ایگزیبیشن کو اس وجہ سے بند کر دیا گیا کہ وہاں میوزک چلایا جا رہا تھا اور جانے والی خواتین نے اپنے حجاب اتار دیے تھے۔
صارف نے کہا کہ ’جبکہ سعودی عرب بین الاقوامی فٹبال کھلاڑیوں کو اپنے ملک لا رہا ہے تاکہ مملکت آگے بڑھ سکے، ادھر کچھ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ خواتین کے بال نظر آئیں اور یہ بین الاقوامی نمائش کو بند کر دیں۔‘
ایران کے ماہر معاشیات سیماق قاسمی نے کہا کہ ’سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے سامنے لایا گیا یہ آئیڈیا کہ خلیجی ریاستوں کو یورپی یونین طرز کے بلاک یا اتحاد میں تبدیل کیا جائے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ بلاک کسی ایک مشترکہ کرنسی کو اختیار نہیں کرے گا۔ خلیج عرب کے شمالی اور جنوبی حصے کے درمیان معاشی تفاوت بڑھے گی۔ ورلڈ ہیپینیس یا خوشحال شہریوں کی عالمی رپورٹ کے مطابق ایران کا نمبر 101 ہے جبکہ سعودی عرب اس فہرست میں 30 ویں نمبر پر ہے۔‘
کسی بھی شعبے کو لیا جائے تو یہ واضح ہے کہ سعودی عرب ترقی کر رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور خوشحال ہو رہا ہے۔ حریف ریاستیں مملکت کے گورننس اور ترقی کے ماڈل سے سیکھ کر اس کو اپنا سکتی ہیں۔

 ڈاکٹر محمد السولامی انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ایرانین سٹڈیز کے بانی اور صدر ہیں۔

ڈسکلیمر: اس مضمون کے خیالات اور رائے لکھنے والے کی ہے اور ضروری نہیں کہ ادارے کے نکتہ نظر کو بھی منعکس کرتی ہو۔

شیئر: