Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: ’ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور عدالت بھی‘

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے حوالے سے دیے گئے جرائم میں سویلین کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اب آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹس میں کیس کیسے جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کا چھ رکنی بینچ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر کیس کی سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آرمڈ فورسز سے تعلق پر ٹرائل ہونا ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کا اس کا معیار کیا ہوگا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ لوگوں کے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس سے سلب کرنا چاہتے ہیں تو اس کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا ’بتائیں آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 175/3کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کورٹ مارشل آرٹیکل 175کے زمرے میں نہیں آتا؟‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے، بنیادی انسانی حقوق کا تصور یہ ہے کہ ریاست چاہے بھی تو واپس نہیں لے سکتی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوجی عدالتیں ٹریبونل کی طرح ہیں جو آرمڈ فورسز سے وابستہ افراد اور دفاع کے متعلق ہے،  کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالت کے زمرے میں نہیں آتا اس لیے اس میں اپیل کا حق نہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرمی ایکٹ کے حوالے سے دیے گئے جرائم میں سویلین کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں، کہ ملٹری کورٹس میں کیس کیسے جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عام شہریوں کا کسی جرم میں آرمڈ فورسز سے تعلق ہو تو ملٹری کورٹ ٹرائل کر سکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور آئین میں واضح لکھا ہے کہ یہ قانون ان افراد سے متعلق ہے جو آرمڈ فورسز کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دشمن ممالک کے جاسوس اور دہشت گردوں کے لیے ملٹری کورٹ کا ہونا ضروری ہے، عدالت کو یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ کن وجوہات پر مشتمل فیصلے دیں گے۔
اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کی جانب سے عدالت سے چھٹیوں پر جانے سے پہلے کیس کا فیصلہ کرنے کی استدعا پر چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی۔
انھوں نے کہا کہ آپ نے ساری صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، جنہوں نے اس عدالت کو فعال بنانے میں مدد کی ہے ان کے لیے دل میں احترام ہے۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے اور میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے۔
چیف جسٹس نے یہ کہہ کر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی کہ ‏دو ہفتوں تک فوجی عدالتوں کے خلاف کیس کی سماعت ممکن نہیں۔

شیئر: