Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں بجلی چوری روکنے کے نئے طریقے کامیاب ہو جائیں گے؟

نگراں حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے وزارت توانائی سے تجاویز طلب کی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ملک میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں کے بعد ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ اور وہ بحث ہے مفت بجلی اور بجلی چوری کے معاملات پر سرکار کی خاموشی۔
سوشل میڈیا پر صارفین روزانہ ایسے افراد کے بجلی کے بل پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے مفت بجلی میسر ہے۔ چاہے وہ کوئی واپڈا کا ملازم ہے یا پھر کسی اور سرکاری محکمے سے۔
تاہم مفت بجلی کے ساتھ ساتھ ماہرین اور تجزیہ کار ایسے اعداد وشمار بھی سامنے لے کر آئے ہیں جن میں بجلی چوری کی مد میں ہونے والا نقصان ہے۔
بجلی چوری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان الیکٹرک سپلائی کمپنی پیپکو کے سابق مینجنگ ڈائرکٹر طاہر بشارت چیمہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت لائن لاسز یا بجلی چوری کی مد میں پانچ کھرب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔
’اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے اگر یہ خسارہ ہی کنٹرول کر لیا جائے تو لوگوں کی مشکل کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ٹیکنیکل طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی نشاندہی کرنا جو بجلی چوری کرتے ہیں زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔‘
اس شور شرابے میں وفاقی نگراں حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے وزارت توانائی سے تجاویز طلب کی ہیں۔ ابھی تک جو تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں حکومت ایک آرڈیننس لانے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں بجلی کا بل نہ دینے والے افراد کو بھی بجلی چور تصور کیا جائے گا۔ اور بجلی چوری کی تعریف بل نہ دینے والوں کے برابر کی جا رہی ہے۔
طاہر بشارت چیمہ کہتے ہیں کہ یہ تھوڑا سخت ہو جائے گا۔ کیونکہ بل میں تاخیر ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
’اگر کسی کے پاس پیسوں کی کمی ہے تو اس کو بجلی چوری سے تشبیح نہیں دے سکتے ہیں۔ بلکہ ان کو ادائیگی کی سہولت قسطوں کی شکل میں فراہم کرتے ہیں۔ حکومت کو سارا پتا ہے کن علاقوں میں بجلی چوری ہو رہی ہے اور کون کرتا ہے۔ تو ایکشن صرف ان کے خلاف ہونا چاہیے۔‘

ملک میں بجلی کے اضافی بِلوں کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی۹

لاہور الیکٹرک سپلائی کپمنی لیسکو کی ریکوری سیکشن کے سربراہ محمد منظور کہتے ہیں کہ لیسکو میں لائن لاسز یا ریکوری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیسکو 95 سے 97 فی صدر ریکوری کر کر رہا ہے۔
’لائن لاسز یا بجلی چوری بھی پاکستان کے تمام ڈسکوز سے کم لیسکو میں ہے۔ لیکن اگر حکومت کوئی بھی نئی پالیسی لے کر آتی ہے تو اس پر پوری سپرٹ کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
حکومت کی جانب سے لائے جانے والے نئے آرڈیننس میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی پالیسی بھی بدلے جانے کا امکان ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی شمسی توانائی سے پیدا کی جا رہی ہے۔ وزارت توانائی کا ماننا ہے کہ سولر انرجی کی پیداوار سے کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی عوام پر پڑا ہے۔

پیپکو کے سابق مینجنگ ڈائرکٹر کے مطابق لائن لاسز کی مد میں پانچ کھرب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

طاہر بشارت چیمہ کہتے ہیں کہ ’شمسی توانائی کا شعبہ نسبتاً نیا ہے اور اس میں ابھی مزید قانون سازی بھی ہو گی۔ لیکن اگر حکومت نے ابھی سے اس کو مشکل بنا دیا تو جو لوگ سولر کی طرف راغب ہو رہے ہیں وہ رک جائیں گے کہ فائدہ نہیں ہے۔ اگر بل میں کٹوتی نہیں ہو گی تو سولر لگانے کا فائدہ کیا ہو گا؟ ابھی یہ آرڈیننس سامنے آئے گا تو مزید باتیں واضع ہوں گی۔‘
خیال رہے کہ وزرات توانائی کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں بجلی چوری کے 20 ہزار سے مقدمات درج ہوئے۔ تاہم ساڑھے پانچ سو افراد کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اگر بل نہ دینا بھی قانونی طور پر بجلی چوری میں تبدیل کر دیا گیا تو ان مقدمات کی تعداد یقیناً بڑھے گی لیکن اس سوال کا جواب فی الوقت کسی کے پاس نہیں کہ بجلی چوری رکے گی یا نہیں۔

شیئر: