نگراں حکومت کو الیکشن کرانے کے لیے کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟
نگراں حکومت کو الیکشن کرانے کے لیے کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟
ہفتہ 12 اگست 2023 19:56
پاکستان کی تاریخ میں انوار الحق کاکڑ کی یہ پہلی نگراں حکومت ہوگی جو معیشت کے حوالے سے پالیسی بھی بنا سکے گی (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت ملک میں عام انتخابات کا انعقاد کروائے گی جو 90 روز میں ہونے ہیں، تاہم آئینی، معاشی اور سیاسی مشکلات میں گھرے ملک میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے بے یقینی پائی جاتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب تک الیکشن کے ذریعے نیا وزیراعظم حلف نہیں اٹھاتا، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی کابینہ ملکی معاملات چلائیں گے، تاہم ایسی صورت حال میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ آئندہ چند ماہ کیسے گزریں گے؟
کیا عام انتخابات وقت پر ہوں گے؟
آئین کے تحت نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت کو 90 روز میں الیکشن کروانا ہوں گے، تاہم اتحادی حکومت نے آخری دنوں میں نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرے گا۔
الیکشن کمیشن کے ایک سابق عہدے دار کے مطابق ’وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے سینکڑوں حلقوں کی حلقہ بندیاں کرنے میں چھ یا اس سے زیادہ ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
الیکشن کمیشن نے بتانا ہے کہ اسے حلقہ بندیاں کرنے میں کتنا وقت لگے گا اور الیکشن کب ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کمیشن کو امیدواروں کی طرف سے قانونی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے۔
نگراں حکومت کا کیا کردار ہوگا؟
عام طور پر نگراں حکومت کا کام صرف الیکشن کروانا ہوتا ہے اور اس کا پالیسی سازی میں کوئی کردار نہیں ہوتا، لیکن حالیہ قانون سازی کے تحت پاکستان کی تاریخ میں انوار الحق کاکڑ کی یہ پہلی نگراں حکومت ہوگی جو معیشت کے حوالے سے پالیسی بنا سکے گی۔
بظاہر اس کا مقصد آئی ایم ایف کے ساتھ جون میں کیے گئے تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے کو چلانا ہے۔ آئی ایم ایف کے تین میں سے کم از کم ایک جائزہ نگراں حکومت کے تحت ہوگا، اور الیکشن میں التوا ہوتا ہے تو ان جائزوں کی تعداد ایک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے تمام سیاسی جماعتوں سے گفتگو کرکے اس پر اتفاق رائے قائم کر رکھا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے؟
انوار الحق کاکڑ کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور عام تاثر یہی ہے کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر نگراں سیٹ اپ طوالت اختیار ہے تو منتخب حکومت کے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں اضافہ ہوگا۔
کیا عمران خان الیکشن میں حصہ لیں گے؟
عمران خان کرپشن کیس میں سزا کے بعد تین سال کے لیے جیل جا چکے ہیں اور وہ پانچ برس تک الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے الیکشن میں فتح حاصل کی تھی اور وہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ تاہم گذشتہ برس اپریل میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ان کی حکومت ختم کردی گئی تھی۔
آئندہ حکومت کی امیدوار تین بڑی سیاسی جماعتیں کون سی ہیں؟
عام انتخابات میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین مقابلہ ہوگا۔ عمران خان کے جیل جانے کے بعد اب تحریک انصاف کوشش کرے گی کہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے اگلا الیکشن جیتا جائے۔
روئٹرز کے مطابق پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں اسی صورت میں آسکتی ہے کہ اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات معمول پر آجائیں، تاہم ایسا ہونے کے امکانات بہت محدود ہیں۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں، لیکن ان کو کرپشن کیس میں سزا ہو چکی ہے اور ان حالات میں اگلی حکومت میں بھی شہباز شریف ہی وزارت عظمٰی کے امیدوار نظر آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی وزارت عظمٰی کے امیدوار ہیں جنہوں نے وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھائیں اور انہیں بھی مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
الیکشن تک کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟
آئی ایم ایف ڈیل کے بعد ڈیفالٹ سے بال بال بچنے والے ملک پاکستان کے لیے معاشی استحکام سب سے بڑا چیلنج ہے۔ معاشی اصلاحات سے پہلے ہی تاریخی مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہو چکا ہے۔
عمران خان کے جیل جانے کے بعد سیاسی بے یقینی بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ ان گرفتاری کے بعد 9 مئی جیسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی، لیکن اگر وہ مسلسل جیل میں رہتے ہیں تو الیکشن کی ساکھ پر سوالات اٹھیں گے۔
اگر الیکشن میں 90 روز سے زیادہ کی تاخیر ہوتی ہے تو سپریم کورٹ آئین کی تشریح کرتے ہوئے آئینی و قانونی سوالات بھی اٹھا سکتی ہے۔