Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو کے جارحانہ بیانات، کنفیوژن یا سیاسی پیش بندی کی کوشش؟

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان اگلے منظر نامے کے حوالے سے اختلاف نہیں‘ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)
پاکستان میں گذشتہ چند روز سے سیاسی اُفق پر ہلچل شروع ہو چکی ہے۔ اس ہلچل کا آغاز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بیانات سے ہوا ہے۔
اس سے قبل بھی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد پاکستان میں نئے انتخابات کی تاریخ سامنے نہ آنے پر ایک طرح کا سیاسی جمود نظر آرہا تھا۔
ایک طرف بلاول بھٹو کے تندوتیز بیانات خبروں کی زینت بن رہے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کی طرف سے پارٹی قائد نواز شریف کے 21 اکتوبر کو ملک واپس آنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ’یہ ایک متوقع سیاسی صورت حال ہے۔‘
بلاول بھٹو نے ایک طرف انتخابات 90 روز میں کروانے کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری جانب انہوں نے کہا کہ ’تمام سیاست دانوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہیں ہے۔‘
ان کی جانب سے 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ سامنے آنے کے اگلے روز پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے صدر آصف علی زرداری نے عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے بعد کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان بیانات کے بعد یہ تاثر قائم ہوا کہ دونوں باپ بیٹا الگ الگ لائن لے رہے ہیں۔ یہ آوازیں بھی آئیں کہ بلاول بھٹو زرداری کنفیوژن کا شکار ہیں۔
سینیئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’جب بھی انتخابات کی بات ہو گی تو سیاسی بیانات کی توانائی تو زیادہ ہو گی۔‘
’میرا خیال ہے کہ ’بلاول کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں۔ انہوں نے برق رفتاری سے انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے، اس میں تھوڑی بہت اُونچ نیچ ہو جاتی ہے لیکن آپ دیکھیں انہوں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں جا کر اپنے مستقبل کے بیانیے کی بنیاد رکھ دی ہے۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق ’بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کا ایک تناظر نواز شریف کی سیاست بھی ہے‘ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کا ایک تناظر نواز شریف کی سیاست بھی ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو جو سیٹ اس وقت لگ چکا ہے یہ نواز شریف کے لیے ہے۔‘
’ایک طرف ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری کو وزیر لگا دیا گیا ہے تو اسی دن انہوں نے واپسی کا اعلان بھی کر دیا ہے اور ہمیں یہ نظر آرہا ہے نواز شریف کے لیے چیزیں ترتیب پا رہی ہیں۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’ایسے میں ان کے مخالف سیاست دانوں کے پاس تو ہم سے پہلے اور زیادہ معلومات ہوں گی۔ اس تناظر میں بھی پیپلز پارٹی ایک روایتی حریف کی طرح ہی انتخابی مہم چلائے گی اور بلاول کے بیانات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس 14 ستمبر کو لاہور میں طلب کر لیا ہے جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ ن نے بھی لاہور ایئرپورٹ پر نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ’بلاول کے بیانات سیاسی پیش بندی ہیں، وہ نواز شریف کو کُھلا راستہ کیوں دیں گے؟‘ (فائل فوٹو: پی پی پی ٹوئٹر)

سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’روایتی بیان بازی سیاست کا حسن ہے۔ ابھی تو شروعات ہے۔ آنے والے چند دنوں کے دوران اس میں تیزی آئے گی۔‘
’میرا نہیں خیال کہ بلاول بھٹو زرادری اور آصف علی زرداری کے درمیان اگلے منظر نامے کے حوالے سے کوئی اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہاں الفاظ کے انتخاب میں ہیر پھیر ہونا معمول کی بات ہے۔‘
مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’ان کے حالیہ بیانات سیاسی پیش بندی ہیں، وہ نواز شریف کو کُھلا راستہ کیوں دیں گے؟ ابھی تو دبے لفظوں میں باتیں کر رہے ہیں جب وہ کھل کر سامنے آئیں گے تو سیاسی حدت اور بڑھے گی۔‘
پیپلز پارٹی نے کُھل کر پنجاب کے نگراں سیٹ اپ پر بھی سوال اُٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری حسن مرتضیٰ نے منگل کو لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نگراں حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور شدید تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ ’نگراں حکومت ایک سیاسی جماعت کی مرضی سے افسران لگا رہی ہے جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔‘

شیئر: