Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبیا میں تباہ کن سیلاب سے گیارہ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں، دو ڈیموں کے ٹوٹنے کی تحقیقات

اب بھی بڑے پیمانے پر امدادی کوششوں کی ضرورت ہے (فوٹو: اے پی)
لیبیا میں حکام نے ساحلی شہر میں تباہ کن سیلاب کا باعث بننے والے دو ڈیموں کے ٹوٹنے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
امدادی ٹیموں نے سیلاب سے گیارہ ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکتوں کے تقریبا ایک ہفتے بعد سنیچر کو نعشوں کی تلاش کا کام شروع کیا ہے۔ 
بحیرہ روم  میں سمندری طوفان ڈینیئل کے باعث ہونے والی شد بارش  گزشتہ ہفتے کے آخر میں مشرقی لیبیا میں تباہ کن سیلاب کا باعث بنی ہے۔ سیلاب سے دو ڈیم تباہ ہوگئے۔ کئی میٹر اورنچی لہروں نے درنہ کے پورے محلوں کو تباہ کردیا اور لوگوں کو سمندر میں بہا دیا۔
لیبیا کے ریڈ کریسینٹ کے مطابق دس ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔ چھ دن گزرنے کے باوجود امدادی ٹیمیں مٹی اور تباہ شدہ عمارتوں میں کھدائی کرکے ممکنہ زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کررہے ہیں۔ 
ریڈ کریسینٹ نے اب تک گیارہ ہزار 300 افراد کے مرنے کی تصدیق کی ہے۔
ایسوسی ایٹ پریس اے پی کے مطابق ڈاکٹر ود آوٹ بارڈرز کے امدادی گروپ کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ کلیئر نکلیٹ کا کہنا کہ’ امدادی کارکنوں کو جمعے کو بہت سی نعشیں ملی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد تھی اور وہ ابھی تک تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے سمندر اب بھی بہت سی نعشیں اگل رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ’ اب بھی بڑے پیمانے پر امدادی کوششوں کی ضرورت ہے جس میں ان لوگوں کےلیے فوری نفسیاتی مدد شامل  ہے جنہوں نے اپنے خاندانوں کو کھو دیا ہے‘۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’تلاش اور بچاو کی کوششوں اور امداد کی تقسیم میں کچھ پیش رفت کے باوجود نعشوں کی تدفین ایک اہم چیلنج ہے‘۔

سب سے زیادہ متاثر شہر درنہ کو رہائشیوں سے خالی کرا دیا گیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

لیبیا کے جنرل پراسیکیوٹر الصدیق الصور نے درنہ میں پریس بریفنگ میں کہا کہ ’ پراسیکیوٹرز ان دو ڈیموں کے ٹوٹنے کی تحقیقات کریں گے جو 1970 کی دہائی میں تعمیر کیے گئے تھے اور ساتھ ہی ڈیموں کی دیکھ بھال کے فنڈز مختص کیے گئے تھے’۔
انہوں نے کہا ’ پراسیکیوٹرز شہر کے مقامی حکام کے ساتھ سابق حکومتوں سے بھی تفتیش کریں گے‘۔
ان کا کہنا تھا’ میں شہریوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جس نے بھی غلطی یا غفلت کی ہے۔ پراسیکیوٹرز یقینی طورپر سخت اقدامت کریں گے۔  فوجداری مقدمہ درج کرکے مقدمے سماعت کےلیے بھیجیں گے‘۔
یہ واضح نہیں کہ شمالی افریقہ کے اس ملک میں اس طرح کی تحقیقات کیسے جا سکتی ہیں جو 2011 میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے بعد افرا تفری کا شکارہے۔ 

ریڈ کریسینٹ نے اب تک گیارہ ہزار 300 افراد کے مرنے کی تصدیق کی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

قبل ازیں لیبیا میں حکام نے کہا تھا کہ ’سب سے زیادہ متاثر شہر درنہ کو رہائشیوں سے خالی کرا دیا گیا ہے جہاں سمندر مسلسل نعشیں اگل رہا ہے۔‘
’صرف درنہ میں 30 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جنہیں متاثرہ شہر سے باہر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔‘
لیبیا میں سمندری طوفان سے بدترین تباہی کے بعد سعودی عرب سمیت خیلج کے عرب ملکوں نے بڑے پیمانے پر امداد بھیجی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق شمالی افریقہ کے دو ملکوں میں گزشتہ ہفتے تین دن کے دوران دو بڑے انسانی المیوں نے جنم لیا۔ جمعے کو مراکش میں تباہ کن زلزلے سے تین ہزار افراد کی اموات کے دو دن بعد لیبیا میں سمندری طوفان نے تباہی مچائی۔
ان دو بڑے واقعات سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے عالمی امداد بھیجی گئی ہے۔
لیبیا میں صورتحال اس لیے بھی زیادہ تشویش ناک ہے کہ وہاں گزشتہ کئی برسوں سے ایک باقاعدہ حکومت کی تشکیل تعطل کا شکار ہے۔

شیئر: