Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک بچے کی تلاش میں جب پولیس بچوں کو بھکاری بنانے والے گروہ تک پہنچی

پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چھ مہینے میں 93 عورتیں بھی حراست میں لی گئی ہیں۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)
لاہور کے راوی روڈ کے علاقے میں پولیس کی ایک ٹیم ایک کوارٹر پر چھاپہ مارنے کے لئے تیار تھی۔ رات کے تیسرے پہر کوارٹر کا دروازہ زبردستی کھول کر پولیس کے جوان اندر گھسے تو انہیں دو بچے ملے جنہوں نے پولیس کو دیکھ کر شور ڈال دیا۔
جب کہ ان کے ساتھ ایک نوجوان بھی سویا ہوا تھا اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی پولیس اس کو قابو کر چکی تھی۔
لاہور پولیس کا یہ چھاپہ ایک نو سالہ کمسن بچے عبداللہ کی تلاش میں تھا۔ عبداللہ کا تعلق لاہور کے علاقے انارکلی سے ہے جنہیں ان کے والدین نے درزی کا کام سیکھنے کے لئے ایک دکان پر ملازمت پر رکھوایا تھا۔
12 ستمبر کی صبح وہ گھر سے نکلے تو عرس اور دیگر تقریبات کی وجہ سے پولیس نے کچھ راستے مسدود کر رکھے تھے۔ پچھلی گلی میں سے نکلتے ایک شخص نے عبداللہ کا پیچھا شروع کر دیا۔ تھوڑی دور جا کر اس نے بتایا کہ راستہ اس طرف ہے اور پھر یہ راستہ کبھی نہ آیا۔
جب عبداللہ کو ہوش آیا تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ کہاں ہیں۔ ایک شخص ان کے قریب بیٹھا تھا جس نے اپنا نام عبدالوہاب بتایا اور دلاسہ دیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ لیکن عبداللہ کی پریشانی نہیں گئی۔
دوسری طرف عبداللہ کے گھر میں بھی کہرام مچا ہوا تھا۔ تھانہ نیو انارکلی میں ان کی اغوا کی ایف آئی آر درج ہو چکی تھی۔

پولیس نے عبداللہ کو کیسے ڈھونڈا؟

اغوا کے دوسرے روز ہی عبداللہ نے اس شخص کے فون سے اپنے والد کے نمبر پر کال کر دی۔ مقدمے کے تفتیشی افسر اشتیاق نور نے اردو نیوز کو اس واقعے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جانے انجانے میں وہ ایک نمبر آگیا تھا۔ بچے کے والد نے فوری وہ نمبر ہمیں دیا۔ تو اس کے بعد ہم نے لوکیشن اور کال ڈٰیٹا ریکارڈ تک رسائی حاصل کی۔ اور یہ سب بہت عجلت میں کیا کیونکہ اس بات کا کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اغوا برائے تاوان کا معاملہ ہے یا کچھ اور ہے۔‘

لاہور پولیس چیف بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے بھکاریوں کے منظم گروہوں کے خلاف پولیس ہر وقت ایکشن میں ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اشتیاق نور نے اپنی بات جاری رکھتےہوئے کہا کہ ’یہ نمبر مسلسل حرکت میں تھا کبھی اس کی لوکیشن ڈی ایچ اے فیز فائیو کی آرہی تھی کبھی کسی اور علاقے کی اور ہم مسلسل ریڈ کر رہے تھے۔ لیکن یہ شخص پولیس کے آنے سے پہلے ہی وہاں سے نکل جاتا تھا۔ تیسرے روز جب اس نمبر کی لوکیشن راوی روڈ کی آئی تو ہم نے پھر فوری ریڈ کا فیصلہ کیا۔ اور اس بار ہم کامیاب رہے۔‘
’جیسے ہی پولیس پارٹی اس کوراٹر کے اندر گھسی توبچوں نے تو شور ڈال دیا۔ ہم تو ایک بچے کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہاں اسی عمر کا ایک بچہ علی رضا بھی تھا۔ جس کو گلشن راوی سے اغوا کیا گیا تھا۔‘
پولیس تفتیش کے مطابق عبدالوہاب نامی اس اغوا کار کا تعلق پنجاب کے شہر سانگلہ ہل سے ہے اور یہ کافی عرصے سے چھوٹی عمر کے بچوں کو اغوا کر کے بڑے گینگز کو بیچ رہا ہے۔ انچارج انویسٹیگیشن تھانہ نیو انار کلی اشتیاق نور نے بتایا کہ ’یہ شخص جن لوگوں سے رابطے میں تھا ہم ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور ان کے بارے میں مزید معلومات نہیں دے سکتے یہ ایک بہت بڑا گینگ ہے جو چھوٹی عمر کے بچوں کو خرید کر بھکاری بنا رہا ہے۔ وہاب نے مزید ایک دن تک ان بچوں کو ان کے حوالے کر دینا تھا۔ لیکن ہم بروقت پہنچ گئے۔‘

پولیس کا بھکاریوں کے خلاف آپریشن:

لاہور پولیس چیف بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے بھکاریوں کے منظم گروہوں کے خلاف پولیس ہر وقت ایکشن میں ہے۔

 عبداللہ اور علی رضا کا اغوا بھی ؒلاہور کے سٹی ڈویژن کے علاقوں سے ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’لاہور پولیس پیشہ ور بھکاریوں کے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے ۔ رواں سال اب تک سپیشل مہم میں گداگری کے قانون  کے تحت تقریبا تین ہزار مقدمات درج کرکےملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘
تاہم جو لوگ بچوں کے اغوا میں ملوث ہیں ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں اور کئی مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔
پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چھ مہینے میں 93 عورتیں بھی حراست میں لی گئی ہیں۔  گدا گری ایکٹ کی خلاف ورزی کے دوران سٹی ڈویژن میں سب سے زیادہ 856 مقدمات کا اندراج کیا گیا۔
خیال رہے کہ عبداللہ اور علی رضا کا اغوا بھی سٹی ڈویژن کے علاقوں سے ہوا تھا۔

شیئر: