Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گولڈ ’مافیا‘ کیا ہے اور یہ پاکستان میں کیسے کام کرتا ہے؟

تاجر محمد آصف کے مطابق سونے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے لوگ سنار سے زیورات نہیں خریدتے بلکہ 24 قیراط کا خالص سونا خریدتے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کی جانے والی اصلاحات کی وجوہات سے ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف ڈالر اور سونے کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں ہیں۔
نگراں حکومت نے گذشتہ ہفتے ڈالر کی قیمتوں میں اضافے پر مختلف محکموں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو ڈالر، سونے اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کو روکنے کی کوشش کرے گی۔
پاکستان میں سونے کی سمگلنگ کیسے ہو رہی ہے؟ اس بات کو جاننے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سونے کی مارکیٹ کیسے کام کرتی ہے۔
لاہور میں سونے کے ایک تاجر محمد آصف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سونے کی مارکیٹوں میں جو لوگ سونے کے زیورات کا کام کرتے ہیں یہ ان سے جڑا ہوا معاملہ نہیں ہے۔ جب پاکستان کا روپیہ تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف گیا تو بہت سے لوگوں نے ڈالر اور خالص سونے کی خریداری کر کے اپنی دولت کو بچانے کی کوشش کی۔ جس سے ایک دم اوپن مارکیٹ میں ڈالر بھی اوپر گیا اور خالص سونے کی قیمت بھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سونے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے لوگ سنار سے زیورات نہیں خریدتے بلکہ 24 قیراط کا خالص سونا خریدتے ہیں۔ زیورات والے سونے میں پالش اور دیگر چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے، اور وہ 21 یا 22 قیراط سونا ہوتا ہے۔ اس میں تو سرمایہ کاری کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ نہ ایسے ہوا ہے کہ لوگوں نے سونے کی دکانوں کا رخ کیا ہے بلکہ میں آپ کو سچی بات بتاؤں تو اس وقت سونے کے زیوارت کے کاروبار میں تاریخی مندی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سونے کی مارکیٹوں میں ایسے کاریگر بھی بیٹھتے ہیں جو خالص سونے کا کاروبار کرتے ہیں، وہ زیورات سے ملاوٹ نکال کر خالص سونے میں تبدیل کرتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے فی تولہ سونے کی قیمت دو لاکھ نو ہزار روپے تک آ گئی۔ (فوٹو: روئٹرز)

محمد ادریس جو خالص سونا بنانے کے کاریگر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس زرگر سونے کے زیوارت بھیجتے ہیں، لین دین میں وہ خریدتے ہیں تو ہم اس کو 24 قیراط بنا دیتے ہیں اور اس کی ہم مزدوری لیتے ہیں۔ کچھ لوگ بھی آتے ہیں جیسے وراثتی سونا کسی کے پاس ہو تو وہ ایک دفعہ ان زیورات کو تحلیل کروا کے دوبارہ اپنی مرضی کے ڈیزائن کا زیور بنواتے ہیں۔ کھلی مارکیٹ میں آ کر بڑے پیمانے پر خالص سونا خریدنا یا بیچنا اس طرح سے ممکن نہیں ہے جو تاثر ہے۔ البتہ سمگلروں کا کاروبار خالص سونے کے ساتھ ہی ہوتا ہے نہ کہ زیورات کے ساتھ، لیکن وہ کیسے کام کرتے ہیں اس کا علم نہیں۔‘
نگراں حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی ٹاسک فورس کے قیام بعد پاکستان میں فی تولہ سونے کی قیمتوں میں دو ہفتوں میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔
گذشتہ ہفتے فی تولہ سونے کی قیمت دو لاکھ نو ہزار روپے تک آ گئی جبکہ اس سے قبل یہ دو لاکھ 39 ہزار روپے میں بک رہا تھا۔ پکڑ دھکڑ اور ٹاسک فورس کے اعلان کے بعد صرافہ مارکیٹ نے سونے کا ریٹ جاری نہیں کیا ہے اور ہی کراچی اور لاہور کی صرافہ مارکیٹوں کی تنظیمیں اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’گذشتہ چند دنوں میں چار ایسے گولڈ سمگلرز پکڑے گئے ہیں جو ماضی میں سونے کی سمگلنگ میں ملوث تھے۔ اب یہ لوگ افغانستان کا روٹ استعمال کر رہے تھے۔ اگلے کچھ دنوں میں مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ گولڈ سمگلر سونے کے بسکٹ پاکستان میں افغانستان کے راستے لا بھی رہے ہیں اور لے جا بھی رہے ہیں۔ جس میں کمی ہوئی ہے اس لیے سونے کے ریٹ نیچے آئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس میں اور بھی بہتری آئے گی۔

پکڑ دھکڑ اور ٹاسک فورس کے اعلان کے بعد صرافہ مارکیٹ نے سونے کا ریٹ جاری نہیں کیا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے بتایا کہ ’گولڈ کی مارکیٹ ابھی پوری طرح ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے اور نہ ایف بی آر سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے اس لیے گولڈ مافیا اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ عام مارکیٹ میں بیٹھ کر ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کو خریدوفروخت کے جدید نظام سے منسلک کرنے تک مسئلے کا حل نہیں ہو گا۔ جیسے دبئی اور دیگر ملکوں میں ہو رہا ہے۔‘

شیئر: