Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

18 ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگانے والا برطانوی کمانڈر کیسے بچا؟

نکولس الکیمیڈ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ۔ (فوٹو: لیسٹرشائر مرکری)
برطانوی رائل ایئرفورس کے کمانڈر نکولس الکیمیڈ کا طیارہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی کے حساس علاقے سے گزر رہا تھا جب جرمن فوجوں کی جانب سے داغا گیا میزائل جہاز سے ٹکرایا اور وہ آگ کی لپیٹ میں آ گیا جبکہ پائلٹ کی حفاظت کے لیے موجود پیراشوٹ بھی جل گیا۔
موت الکمیڈ سے چند قدم کی دوری پر تھی۔ الکیمیڈ نے مگر ہمت نہ ہاری اور تیزی سے نیچے آ رہے جہاز سے چھلانگ لگا دی۔ وہ طیارے سے گرنے کے بعد تین گھنٹوں تک بے ہوش رہے اور جب ہوش میں آئے تو جرمن فوج کی قید میں تھے۔
العربیہ کے مطابق اس پراسرار اور حیرت انگیز کہانی کا آغاز یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر جرمنی کے حملے سے ہوا جس کے بعد دنیا کو دوسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا جو تقریباً چھ برس تک جاری رہی اور اس میں چھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔
دوسری جنگ عظیم میں جہاں لاکھوں بے گناہ شہری جان سے گئے وہاں متعدد فوجیوں نے میدان جنگ میں اعلٰی کارکردگی دکھائی اور ایسی بے مثل کامیابیاں حاصل کیں جن کا تذکرہ اب بھی جاری ہے۔
برطانوی پائلٹ نکولس الکیمیڈ کا شمار بھی ان فوجیوں میں کیا جاتا ہے جو نہ صرف اس ہولناک جنگ میں زندہ بچ گئے بلکہ ان کی نمایاں کارکردگی تاریخ کا حصہ بھی بن گئی۔

رائل ایئرفورس میں شمولیت

الکیمیڈ 10 دسمبر 1922 میں برطانیہ کے علاقے نورفولک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے فوج میں شمولیت اختیار کرنے سے قبل باغبانی کا کام بھی کیا۔ 
دوسری جنگ عظیم شروع ہوتے ہی وہ برطانوی رائل ایئرفورس میں شامل ہوگئے جہاں انہوں نے جہاز پرنصب مشین گن چلانے کی تربیت حاصل کی۔
تربیتی مدت مکمل کرنے کے بعد انہیں رائل ایئرفورس کے 115 سکواڈرن کی بمبار یونٹ میں شامل کیا گیا۔

تربیت مدت مکمل ہونے کے بعد نکولس الکیمیڈ کو رائل ایئرفورس کے 115 سکواڈرن کی بمبار یونٹ میں شامل کیا گیا۔ (فائل فوٹو: وار ہسٹری)

18 ہزار فٹ کی بلندی سے گرنا

نکولس الکیمیڈ نے 14 عسکری کارروائیوں میں حصہ لیا۔ 24 مارچ 1944 کی رات وہ اپنے دستے کے ساتھ جرمنی کے دارالحکومت برلن پر فضائی بمباری کرنے کے مشن پر روانہ ہوئے جہاں انہوں نے برلن پر بمباری کرنے کے بعد واپسی کا راستہ اختیار کیا، مگر اس شب موسم کی خرابی کی وجہ سے ہوا کا دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ پائلٹ روہر کے علاقے سے گزرنے پرمجبور ہو گیا جو صنعتی اعتبار سے جرمنی کے لیے بے حد اہم تھا اور اسی وجہ سے وہاں فضائی دفاع کا نظام بھی بہترین تھا۔
اس علاقے سے گزرتے ہوئے ان کا طیارہ جرمن میزائل کا شکار ہو گیا۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے پائلٹ نے ساتھیوں کو پیراشوٹ پہننے کی ہدایت کرتے ہوئے جہاز سے کود جانے کے لیے کہا۔
الکیمائیڈ بطور شوٹر جہاز کے اس حصے میں تھے جہاں مشین گن نصب تھی اور وہ اپنے فرائض انجام دے رہا تھے کہ جہاز کو لگنے والے میزائل سے بھڑکنے والے شعلوں نے ان کو بھی زخمی کر دیا اور ان کے پیراشوٹ کا بڑا حصہ بھی متاثر ہوا۔
اب ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو آگ میں زندہ جل جاتے یا پیراشوٹ کے بغیر ہی 18 ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا دیتے۔
آگ میں زندہ جل جانے کے خوف سے بچنے کے لیے الکیمائیڈ کے سامنے ایک ہی راستہ بچا تھا جس پر انہوں نے پیراشوٹ کے بغیر ہی جہاز سے چھلانگ لگا دی اور 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی جانب آنے لگے۔

نکولس الکیمائیڈ نے پیراشوٹ کے بغیر ہی جہاز سے چھلانگ لگا دی اور 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی جانب آنے لگے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

زمین کی طرف انتہائی تیزی سے گرتے ہوئے نکولس الکیمائیڈ اپنے ہوش کھو بیٹھے۔ تقریباً تین گھنٹے بے ہوش رہنے کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے خود کو صنوبر کے جنگل میں تاحد نگاہ پھیلی ہوئی نرم اور ٹھنڈی برف میں پایا۔ 
جرمن ماہرین کا کہنا تھا کہ ’صنوبر کے درختوں کی نرم ونازک شاخیں نے اتنی بلندی سے گرنے والے فوجی کو سہارا دیا اور وہ قدرتی ڈھال بن گئیں جس کی وجہ سے وہ براہ راست زمین سے نہیں ٹکرایا۔‘
اتنی بلندی سے گرنے پر نکولس الکیمائیڈ کو کافی زیادہ چوٹیں آئی تھیں جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ مدد کے لیے انہوں نے فوجی سیٹی بجانا شروع کی تاکہ علاقے میں موجود لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکے۔ گاؤں کے لوگوں نے الکیمائیڈ کو ہسپتال پہنچا دیا جہاں سے جرمنی کی فوجی خفیہ تنظیم ’گسٹاپو‘ نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔
جرمن فوجی افسروں نے دوران تفتیش ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ جرمن ماہرین کا کہنا تھا کہ اتنی بلندی سے گرنے کے بعد زندہ نہیں بچا جا سکتا مگر جب انہوں نے اس مقام کا سروے کیا اور طیارے کا ملبہ دیکھا تو ان کی بات کو حقیقت تسلیم کر لیا گیا کیونکہ تباہ شدہ نصف پیراشوٹ ابھی تک جہاز میں ہی تھا۔

اتنی بلندی سے گرنے پر نکولس الکیمائیڈ کو کافی زیادہ چوٹیں آئی تھیں جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ (فوٹو: فیکٹ ریپبلک)

بعدازاں اس نوجوان فوجی کو صحت یاب ہونے کے بعد فوجی قیدی کے طور پر جیل بھیج دیا گیا اور جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ منتقل کر دیا گیا۔
نکولس الکیمائیڈ نے برطانیہ آنے کے بعد نئی زندگی کا آغاز کیا، وہ کیمیکل انڈسٹری سے منسلک ہوگئے اور 1987 میں چل بسے۔

شیئر: