Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال کی ’دائی بیچی‘، پہلی خاتون نرس جو 40 برس تک خدمت کرتی رہیں

لعل زمرود کو پورے چترال میں ان کی خدمات کی وجہ سے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا(فوٹو: فخر عالم)
چترال کی پہلی خاتون نرس لعلِ زمرود 74 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔
لعل زمرود اَپر چترال کی پہلی خاتون نرس تھیں۔ انہوں نے ہر مشکل کو پار کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی اور یہ ثابت کیا کہ جذبہ گر ہو جواں تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی۔ انہوں نے نرسنگ کو بطور پیشہ نہیں بلکہ ایک جنون کے طور پر چنا، یہی وجہ ہے کہ ان کا نام ضلع بھر میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔
چترال میں ’دائی خالہ‘ کے نام سے معروف لعل زمرود آج 74  برس کی عمر میں چل بسیں۔ انہوں نے اگرچہ اپنے کام کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کیا مگر ان کے لیے نرسنگ محض ملازمت کا ذریعہ نہیں تھا کیوں کہ انہوں نے اپنے طویل پیشہ ورانہ کیریئر کے دوران کسی قسم کے دنیاوی لالچ کے بغیر دن رات انسانیت کی خدمت کی۔
لعلِ زمرود نے 1949 کو اپر چترال کے علاقے میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب چترال نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان تو کردیا تھا مگر روایتی ریاست اب بھی قائم تھی۔ ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت چترال میں تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔
ایسے میں 1950 کی دہائی میں بونی کی جامع مسجد میں لڑکوں کے لیے ایک سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور ناممکن تھا۔ لعلِ زمرود کا ایک چھوٹا بھائی تھا جسے سکول میں داخل کروایا گیا۔ ان کی عمر چوں کہ کم تھی اس لیے لعل زمرود کو گھر والوں کی طرف سے بھائی کو سکول لے جانے اور واپس لانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ گھر والوں کے بظاہر اس معمولی فیصلے نے لعل زمرود کی زندگی بدل ڈالی۔
لعل زمرود روزانہ چھوٹے بھائی کو لے کر سکول جاتیں، اس کی کتابوں اور بستے کا خیال رکھتیں اور چھٹی ہونے پر واپس لے آتیں۔ وہ سکول کے کمرۂ جماعت میں بھائی کے ساتھ بیٹھ جاتیں۔ آہستہ آہستہ زمرود کو استاد کے پڑھائے گئے سبق میں دلچسپی محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ استاد سبق پڑھاتے تو زمرود بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر پڑھنے لگتیں۔ ساتھ ہی اپنے بھائی کی کتابوں سے مدد بھی لیتی جاتیں۔

1987 میں لغل زمرود (بائیں طرف کھڑی ہیں) پرنس کریم آغا خان کے ہمراہ۔ 

اس دوران ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ فارسی کے استاد کو زمرود کا لڑکوں کی جماعت میں بیٹھ کر سبق پڑھنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے زمرود کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔ زمرود کا کہنا تھا کہ استاد کے اس رویے کی وجہ سے میں فارسی نہیں پڑھ سکی۔
اس کے باوجود تعلیم میں زمرود کی دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی مگر ایک دن ایسا آیا جب ماں باپ نے فیصلہ کیا کہ ان کا بیٹا اب اس قابل ہوگیا ہے کہ خود سے سکول جاکر واپس آ سکے۔ اس لیے اس کے ساتھ زمرود کو سکول بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ زمرود کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔ وہ تعلیم چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ ایسے میں اس کے سکول کے اساتذہ کام آئے۔ زمرود کی تعلیم میں دلچسپی اور قابلیت دیکھ کر انہوں نے ان کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ زمرود کو سکول بھیجتے رہیں۔
والدین نے اساتذہ کے مشورے کا احترام کیا اور زمرود بھائی کے ساتھ سکول جاتی رہیں۔ ان کے پاس مگر پڑھنے کو اپنی کتابیں تک نہ تھیں۔ مجبوراً انہیں اپنے بھائی کی کتابوں سے مدد لینا پڑتی تھی۔ وہ ہنس کر بتایا کرتی تھیں کہ میں اپنے بھائی کی کتابوں سے سبق پڑھ کر نرس بن گئی۔ گھر والے اگر مجھے الگ کتابیں لے کر دیتے تو شاید میں ڈاکٹر بن جاتی!

کراچی میں دو سال تربیت حاصل کرنے کے بعد لعلِ زمرود اور دوسری نرسز 1967 میں واپس لوٹیں۔ (فوٹو: میگپائی نیوز)

بونی کے لڑکوں کے اس سکول سے زمرود نے مڈل پاس کیا۔ تب تک ان کی قابلیت اور تعلیم حاصل کرنے شوق سے ان کے گھر والے آگاہ ہوچکے تھے۔ میٹرک میں پڑھنے کے لیے قریبی سکول 75 کلومیٹر دور چترال کے قصبے میں تھا جہاں جانے میں اچھا خاصا وقت لگتا تھا۔ زمرود کے گھر والوں نے انہیں چترال میں داخلہ کروا دیا جہاں وہ میٹرک تک زیرِتعلیم رہیں۔
1963 میں آغا خان کونسل کی طرف سے کراچی سے ایک ٹیم چترال آئی۔ اس ٹیم کے دورے کا مقصد چترال سے تعلیم یافتہ خواتین ڈھونڈنا تھا جنہیں نرسنگ کی تربیت دے کر واپس چترال میں تعینات کیا جاسکے۔ اس ٹیم کو چترال کے طول و عرض میں زمرود سمیت صرف 4 خواتین ہی مل سکیں جنہیں کراچی کے کھارادر میں موجود جینابائی میٹرنٹی ہوم میں تربیت کے لیے لے جایا گیا۔ یہ ادارہ آغا خان ہیلتھ سینٹر فار ویمن اینڈ چلڈرن کے نام سے اب بھی قائم ہے۔
کراچی میں دو سال تربیت حاصل کرنے کے بعد لعلِ زمرود اور دوسری نرسز 1967 میں واپس لوٹیں۔ زمرود کی پہلی تعیناتی گرم چشمہ میں ہوئی۔ اس وقت ان کی تنخواہ سو روپے تھی۔ نرسز کی سخت ڈیوٹی اور دوسرے شعبوں میں تعلیم یافتہ خواتین کی مانگ اور بہتر مراعات کی وجہ سے جلد ہی باقی تین نرسز نے نرسنگ کو خیرباد کہہ دیا۔ زمرود مگر اس شعبے سے اگلے 40 برسوں تک وابستہ رہیں۔ وہ دن بھر مریضوں کو دیکھتیں اور راتوں کو اچانک دور کسی گاؤں میں ڈیلیوری کیس ہوتا تو وہ دیکھنے کے لیے جانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے مگر لگن سے اپنا کام جاری رکھا۔
گرم چشمہ میں ہی ان کی شادی ایک استاد محراب ولی سے ہوئی۔ محراب ولی نے آگے جاکر بحیثیتِ مذہبی اسکالر نام کمایا، کتابیں تصنیف کیں اور اپنی مذہبی خدمات کی وجہ سے فدائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ پوری زندگی زمرود کا سہارا بنے رہے اور ان کے کام کی حوصلہ افزائی کی۔

لعل زمرود اپنے بیٹے کے ساتھ۔ (فوٹو: فیملی)

زمرود کی کسی علاقے میں پوسٹنگ وہاں کے مریضوں، بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے کسی رحمت سے کم نہ ہوتی تھی۔ طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی خواتین اور نومولود بچے معمولی بیماریوں سے بھی مرجاتے تھے۔ زمرود ایک تربیت یافتہ نرس کی حیثیت سے مریضوں اور ڈیلیوری کے کیسز کے لیے آئی خواتین کی نگہداشت اور تیماداری میں رات دن ایک کرتیں۔
وہ کہتی تھیں کہ کبھی کبھار ایک رات میں انہیں ڈیلیوری کے تین تین کیسز اٹینڈ کرنا پڑتے تھے۔ انہیں بچوں کی ویکسینیشن کے لیے زیادہ تر پیدل اور کبھی کبھار گھوڑے یا پھر گاڑی پر دور دراز پہاڑی وادیوں میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ وہ فخر سے یہ بات بتاتی تھیں کہ انہوں نے چترال کے مختلف علاقوں میں 23 صحت کے مراکز قائم کرنے میں مدد کی اور مڈوائفز کو تربیت دی۔
زمرود کی دیکھا دیکھی جلد ہی دوسری خواتین نے بھی نرسنگ کے شعبے کا رُخ کرنا شروع کردیا اور چترال میں زچہ و بچہ کے حوالے سے حالات بتدریج بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ این جی اوز کے ساتھ ساتھ سرکاری طبی مراکز بھی بننا شروع ہوئے۔ 2004 میں چار دہائیوں تک چترال میں نرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد لعل زمرود ریٹائر ہوگئیں۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں اُس سال اسی میٹرنٹی سینٹر میں انہیں مِڈ وائفز کی گریجویشن کی تقریب میں بطورِ مہمان مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے 40 سال پہلے خود تربیت حاصل کی تھی۔
لعل زمرود کو پورے چترال میں ان کی خدمات کی وجہ سے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ انہیں ’دائی بیچی‘ یعنی ’دائی خالہ‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ ’جو بچے ٹیکہ لگانے کی وجہ سے بچپن میں مجھ سے ڈرتے تھے اب جوان ہوکر میرا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مجھے بتاتا ہے کہ میری پیدائش آپ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ لوگ مجھے بے حد عزت دیتے ہیں۔‘
خواتین زمرود سے خصوصی محبت سے پیش آتی تھیں۔ وہ نہ صرف خواتین کو طبی مسائل کے حوالے سے مشورے دیتییں بلکہ انہیں بااختیار بننے، تعلیم حاصل کرنے اور اپنی اولاد کی بہترین نگہداشت اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی تلقین بھی کرتی تھیں۔ انہیں خواتین کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا اور وہ کہا کرتی تھیں اگر خواتین کو برابر کے مواقع میسر آ جائیں تو وہ کسی بھی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتی ہیں۔

زمرود کی پہلی تعیناتی گرم چشمہ میں ہوئی۔ (فوٹو: فیملی)

آج چترال کی طالبات میں نرسنگ کے پیشے کا انتخاب کرنے کا رجحان ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ طالبات چترال میں نرسنگ سکول نہ ہونے کی وجہ سے پشاور، اسلام آباد اور کراچی جاکر نرسنگ کی تربیت حاصل کرتی ہیں اور نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی زبردست خدمات انجام دے رہی ہیں۔
چترال سے تعلق رکھنے والی نرسز کی بڑی تعداد حالیہ برسوں میں کویت، دبئی اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ بھی جا رہی ہیں۔ خود چترال کے اندر این جی اوز اور سرکار کے بنائے گئے طبی مراکز اور ہسپتالوں میں ہزاروں نرسز مریضوں کی نگہداشت اور علاج کررہی ہیں۔ لعلِ زمرود ان سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں جنہوں نے تنِ تنہا آج سے نصف صدی پہلے اس علاقے میں بطورِ نرس لوگوں کی خدمت کی اور دوسری کئی خواتین کے لیے مثال قائم کی کہ وہ اس اہم پیشے کی طرف آکر دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔

شیئر: