Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسٹریلیا میں پُراسرار مشرومز کی وجہ سے تین ہلاکتیں، کِھلانے والی خاتون گرفتار

49 سالہ ایرین پیٹرسن کا کہنا ہے کہ سب کچھ انجانے میں ہوا (فوٹو: دی آسٹریلین)
آسٹریلوی پولیس نے پراسرار کُھمبیاں کھانے سے تین افراد کی ہلاکت کے بعد ایک خاتون کو گرفتار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 49 سالہ ایرین پیٹرسن کی گرفتاری مشرومز کے اس پرسرار معاملے کا نیا موڑ ہے جس نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور میلبورن سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے لیونگاتھا میں پیش آنے والا واقعہ کچھ مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایرین پیٹروسن کو صبح کے وقت مشروم سینٹر سے گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے گھر کی تلاش سراغ رساں کتوں کی مدد سے کی جا رہی ہے، یہ کتے یو ایس بی اور دیگر الیکٹرانک اشیا کو سونگھ کر کھوج لگانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
تحقیقات کرنے والے سکواڈ کا کہنا ہے کہ ’تلاشی کا کام مکمل ہونے کے بعد خاتون سے مزید پوچھ گچھ کی جائے گی۔‘
ٹیم کے سربراہ ڈین تھامس کا کہنا ہے کہ ’آج ہونے والی گرفتاری ایک پیچیدہ معاملے کے حل کی طرف اگلا قدم ہے اور یہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔‘
تھامس نے معلومات دینے کے بعد صحافیوں کی جانب سے سوالات سننے سے گریز کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ذہن میں یہ بات رکھیں کہ تین افراد نے اپنی زندگیاں کھوئی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی غلط کام کرنے سے انکار کرنے والی خاتون پر ابھی تک کسی قسم کے چارجز نہیں لگائے گئے ہیں۔
خاتون نے 29 جولائی کو مشرومز اپنے سسر ڈان، گیل پیٹرسن، مقامی پادری ایان ولکنسن اور ان کی اہلیہ ہیدر کو کھانے کی ڈش کے طور پر پیش کی تھیں۔
بعدازاں رات کو میاں بیوی پر زہر کے اثرات ظاہر ہونے پر ہسپتال پہنچایا گیا تھا، صرف ایک ہفتے کے اندر نہ صرف جوڑا بلکہ وہ کھانا کھانے والی پادری کی بیوی بھی دم توڑ گئیں۔
مشرومز سے بنا کھانا کھانے کے بعد اس وقت صرف 69 سالہ ولکنسن زندہ ہیں تاہم ان کو دو ماہ تک ہسپتال میں رہنا پڑا اور اب بھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے۔
وہ اکتوبر کے آغاز کے دنوں میں اپنی اہلیہ کی یاد میں ہونے والی تقریبات میں باہر نکلے تھے اور ان کے بارے میں ایک مقامی اخبار نے لکھا تھا کہ وہ بہت کمزور لگ رہے تھے اور لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے۔
گرفتاری سے قبل بھی پیٹرسن مسلسل یہی کہتی رہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اگست میں ان کا کہنا تھا کہ وہ مشرومز ایک سٹور سے لائی تھیں اور ان کا زہریلا ہو جانا محض حادثہ تھا۔
آسٹریلوی میڈیا میں اگست میں ان کا بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ’میں اس پر بہت دکھی ہوں کہ مشرومز کی وجہ سے میرے پیارے صحت کے مسائل سے دوچار ہوئے۔‘
’میں ایک بار پھر یہ کہتی ہوں کہ جن لوگوں سے میں محبت کرتی ہوں ان کو نقصان پہنچانے کی میرے پاس کوئی وجہ نہیں۔‘
موت کی وجہ بننے والی مشروز آسٹریلیا کے نمی والے اور گرم علاقوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں اور عام کھمبیوں کی طرح ہی دکھائی دیتی ہیں جبکہ ان کا ذائقہ دیگر مشرومز کے مقابلے میں زیادہ بہتر لگتا ہے تاہم ان میں ایک ایسا زہر پایا جاتا ہے جو اہستہ آہستہ جگر اور گردوں کو متاثر کرتا ہے۔

شیئر: