Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟‘، اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کےخاندان اجڑ گئے

احمد النعوق کے خاندان کے 21 افراد دھماکے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
جس رات غزہ کی پٹی میں احمد النعوق کے گھر پر دھماکہ ہوا، اس وقت وہ دو ہزار میل سے زیادہ دور تھا لیکن وہ جاگ رہا تھا اور ناقابل بیان خوف میں مبتلا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع تحریر کے مطابق وہ اپنے موبائل فون کی جانب بڑھا، اس نے دیکھا کہ ایک دوست نے ایک پیغام لکھا ہے تاہم بعد میں اس کو ڈیلیٹ کر دیا۔ احمد النعوق نے اس کو لندن سے فون کیا اور اس نے دوسری طرف سے جو الفاظ سنے وہ لرزا دینے والے تھے۔ فضائی حملہ ہوا اور سب مار دیے گئے۔
اس کے چار راتوں کے بعد جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں عمار البوطہ اس وقت اچانک نیند سے جاگ گئے جب کمرے کی دیوار ان پر گر گئی۔ ایک میزائل ان کے اپارٹمنٹ کے اوپر گر کر نیچے والی منزل میں پھٹ گیا تھا۔
وہ اچانک ملبے کی جانب بڑھا اور اپنے رشتہ داروں کو پکارنے لگا۔ ’کوئی ہے‘۔۔۔ وہ رو رہا تھا جہاں صرف خاموشی تھی۔
محصور غزہ کی پٹی میں فلسطینی خاندانوں کی پوری نسلیں دادا سے لے کر چند ہفتوں کے نومولود بچوں تک اسرائیل اور حماس جنگ کے دوران فضائی حملوں میں مارے گئے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کے حملے بعد اسرائیل غزہ پر فضائی حملے کر رہا ہے، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی گنجان آباد علاقے سے عسکریت پسند تنظیم کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔
حملے اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں جو اسرائیل اور حماس تنازع میں برسوں میں کبھی نہیں دیکھے گئے۔ رہائشی علاقوں، سکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ جنوبی غزہ کے علاقوں پر حملہ کیا گیا جہاں اسرائیلی فورسز نے شہریوں کو نکلنے کا حکم دیا گیا۔
لیکن غزہ میں تباہی اور جانی نقصان نے اسرائیلی فوجی حکمت عملی کے بارے میں پریشان کن سوالات کو جنم دیا ہے۔

فضائی حملوں کے ساتھ اسرائیل نے زمینی کارروائی بھی کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نسلوں کا خاتمہ

احمد النعوق کے خاندان کے 21 افراد دھماکے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس میں ان کے 75 برس کے والد، دو بھائی، تین بہنیں اور ان کے 13 بچے شامل تھے۔
لندن میں زیرتعلیم احمد النعوق نے امریکی اے پی کو بتایا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ ایسا واقعہ پیش آیا ہے کیونکہ اگر میں نے سوچنا شروع کر دیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔‘
احمد النعوق کے والد نصری نے بتایا تھا کہ ان کی بہن آیا کا گھر شمالی غزہ میں تباہ ہو گیا ہے اور وہ ان کے ساتھ دیر البلح میں رہ رہی ہیں۔
خاندان کے 21 افراد میں سے 9 اب بھی ملبے تلے دبے ہیں۔ ایندھن کی شدید قلت کی وجہ سے سول ڈیفنس کے عملے نے ملبے کو ہٹانے کا کام روک دیا ہے۔
مرنے والوں کی شناخت ایک اور تکلیف دہ عمل تھا، کئی لاشیں ناقابل شناخت تھیں اور زیادہ تر ٹکڑوں میں تھیں۔
احمد النعوق کی بہن دُعا جو حملے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھیں، نے بتایا کہ ملبے تلے اپنے پیاروں کے تعفن کو برداشت نہیں کر سکتی۔
حملے میں دو افراد بچ گئے تھے ایک احمد النعوق کی بھابھی شیما اور ان کا تین سال کا بھتیجا عمر۔ ان کی 11 سال کی بھتیجی ملاکا کو شدید زخمی حالت میں الاقصٰی ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ جانبر نہیں ہو سکیں۔
اسرائیل گنجان آباد غزہ میں ہدف کا تعین کرنے سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کرتا تاہم اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ان مکانات کو نشانہ بنایا گیا جہاں حماس کے اہلکار موجود ہیں۔
غزہ کے بہت سے خاندانوں نے ان کے گھروں میں حماس کی موجودگی کو مسترد کیا ہے۔

کئی خاندانوں کے بیشتر افراد حملوں میں مارے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت عام شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کرتی لیکن اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ جن کی تعداد بالترتیب ساڑھے چار ہزار اور 22 سو ہے۔
کم از کم 304 خاندانوں نے کم از کم 10 افراد کو کھویا۔
چھ نومبر کی وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 31 خاندان 30 سے زیادہ افراد کھو چکے ہیں۔ یہ تعداد بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ اسرائیل کی شدید بمباری جاری ہے۔
جن خاندانوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ان میں بچے بھی شامل ہیں۔
وزارت صحت کی اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق العستل خاندان نے بمباری میں 89 افراد کھو دیے جن میں 10 برس کی عمر کے 18 بچے تھے اور تین بچے ایسے تھے جو ابھی ایک سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے۔
رپورٹ کے مطابق حسونہ خاندان کے 74 افراد مارے گئے جن میں 22 بچے تھے جن کی عمریں ایک سے 10 سال کے درمیان تھیں۔ نجار خاندان نے اس لڑائی میں 65 افراد کو کھویا۔ 9 کی عمریں 10 سال سے کم تھیں اور 13 کی عمر چار سال سے کم تھی۔
عمار البوطہ کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ دار تمام عام شہری تھے جن کا حماس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی طرح سقلہ خاندان جس نے خان یونس میں عمار البوطہ کے چار منزلہ خاندان میں پناہ لی تھی اس کے 16 افراد 24 اکتوبر کو علی الصبح اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنے۔

شیئر: