Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی پارلیمنٹ سے بِل منظور ہو کر کہاں گم ہو جاتے ہیں؟ 

پاکستانی پارلیمنٹ میں دو طرح کے بلز لائے جاتے ہیں جن میں پرائیویٹ ممبر بل یا گورنمنٹ بل شامل ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی پارلیمنٹ میں گذشتہ چند برسوں کے دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کئی بل منظور ہونے کے بعد ’غائب‘ ہو گئے یا پاس ہونے سے پہلے ہی ’غائب‘ ہو گئے۔
اس نوعیت کا الزام پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں اس وقت کی وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی عائد کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میڈیا قوانین اور بچوں کی شادی سے متعلق دو بلز پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد ’غائب‘ ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی الزام لگایا کہ ان کا بل سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد غائب ہو گیا۔
ان کے اس دعوے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے نوٹس بھی لیا تھا اور چیئرمین سینیٹ کے علم میں بھی یہ بات لائی گئی تھی۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کی جانب سے بلوں کی گمشدگی کے دعوے کے بعد ایک پار پھر اس حوالے سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے سینیٹ میں اپنی ایک تقریر میں بلوں کی گمشدگی پر نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

پارلیمنٹ میں بلوں کو پاس کرنے کا طریقہ

پاکستان کی پارلیمنٹ میں دو طرح کے بلز لائے جاتے ہیں جن میں پرائیویٹ ممبر بل یا گورنمنٹ بل شامل ہیں۔
پرائیویٹ ممبر بل قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ارکان ہی پیش کر سکتے ہیں جبکہ گورنمنٹ بل حکومت سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے۔
یہ حکومت کا استحقاق ہے کہ وہ یہ بل پہلے سینیٹ یا قومی اسمبلی کہیں پر بھی پیش کر سکتی ہے، مگر سینیٹ میں اگر بل پیش کیا جائے گا تو پھر وہاں سے منظوری کے بعد ہی یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
اب یہاں دو طریقے ہیں، اگر قومی اسمبلی سینیٹ سے منظور شدہ بل بغیر ترمیم کے پاس کر دے تو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ وزارت پارلیمانی امور اور وزارت قانون کے ذریعے اس بل کو صدر مملکت کو بھجوائے گا، اور صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت اس بل پر 10 دنوں میں دستخط کرنے کے پابند ہوں گے۔
صدر مملکت اگر مقررہ وقت میں بل میں ترمیم یا نظر ثانی کا کہہ دیں تو بل کی منظوری کے لیے مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا۔

پرائیویٹ ممبر بل قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ارکان ہی پیش کر سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مشترکہ اجلاس اگر بل میں ترمیم یا ترمیم کیے بغیر اس بل کو منظور کر دے تو صدر مملکت 10 دنوں کے اندر اس پر دستخط کرنے کے پابند ہوں گے۔ صدرِ مملکت اگر 10 دنوں میں بل پر دستخط نہ کریں تو ان کے دستخط کے بغیر ہی یہ بل گزٹ آف پاکستان میں شائع ہو جائے گا اور یہ پھر خود بخود قانون بن جائے گا۔
اگر قومی اسمبلی سینیٹ میں پیش کیے گئے بل میں ترامیم کی منظوری دے دے تو اسی بل کو دوبارہ سینیٹ میں بھجوایا جائے گا۔ سینیٹ اگر قومی اسمبلی کی جانب سے کی جانے والی ترامیم کو منظور کر لیتی ہے تو یہ بل صدر مملکت کے پاس بھیجا جائے گا، اور سینیٹ آف پاکستان اگر قومی اسمبلی کے بھجوائے گئے بل میں ترامیم کو منظور نہیں کرتی تو جوائنٹ سیشن بلایا جائے گا جس میں اس بل کو دوبارہ پیش کیا جائے گا، اور منظوری کی صورت میں یہ بل دوبارہ صدر مملکت کے پاس بھیجا جائے گا۔
قومی اسمبلی کے ایک اہم افسر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پرائیویٹ ممبر بل اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ میں پیش کیا جائے تو پہلے اس بل کو ایوان میں پیش کرنے کے بعد متعلقہ کمیٹی کو بھجوایا جائے گا، کمیٹی میں اس بل پر غور ہو گا اور کمیٹی اس کے بعد اس بل پر رپورٹ ایوان کو بھجوائے گی جس کے بعد ایوان میں بل پر ووٹنگ ہو گی اور وہاں سے یہ بل ایوان صدر جائے گا۔‘
انہوں نے بلوں کی گمشدگی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بل گم نہیں ہوا اور نہ ہی ہمارے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ ہم کسی بل کو روک سکیں یا رَد کر سکیں، اور نہ ہی ایسا کچھ ممکن ہے۔ پارلیمانی کمیٹی یا ایوان اگر بل پاس نہ کریں تو یہ خود بخود خارج ہو جائے گا اور ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی الزام لگایا کہ ان کا بل سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد غائب ہو گیا۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

سینیٹر عرفان صدیقی نے کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل 2022 کو سینٹ میں پیش کیا تھا اور وہ بل ’غائب‘ ہو گیا تھا۔
عرفان صدیقی کے مطابق انہوں نے یہ بل سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کروایا تھا اور یہ بل سینیٹ سے پاس بھی ہو گیا تھا مگر واپس کبھی سینیٹ میں نہیں آیا۔
سینٹ سے پاس شدہ بلوں کی گمشدگی کے بارے میں سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اس معاملے پر سینٹ میں بات کی تھی اور کہا تھا کہ ’پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کو صدر مملکت کو بھجوانے کی مدت طے کی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے مگر قانون سازی میں تفریق دیکھی گئی ہے۔‘
ڈاکٹر شہزاد وسیم کے مطابق ’ان کا بل اسلام آباد ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ملازمین سے متعلق تھا جو دہائیوں قبل ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد آئے تھا۔ یہ بل سینیٹ سے پاس ہو کر بھی صدر مملکت کے پاس نہیں پہنچا۔‘
’اشرافیہ کے بل اور قوانین فوراً منظور ہو جاتے ہیں جبکہ عوامی مسائل کے بل پاس کرنا پل صراط پار کرنے جتنا مشکل ہے۔‘
سینیٹ کے ایک افسر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی بل تو بڑے واضح ہیں۔ وزارت اس پورے معاملے کو دیکھتی ہے، مگر پرائیویٹ بل اگر ایوان سے پاس ہوتا ہے تو پھر وہ سینیٹ کا نہیں بلکہ پارلیمانی کمیٹی اور پریذیڈنٹ آفس کا معاملہ ہے اور بل اگر پاس نہیں ہوا تو یہ ضرور مسترد ہوا ہو گا۔‘

سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کے مطابق ’قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے مگر قانون سازی میں تفریق دیکھی گئی ہے۔‘ (فائل فوٹو: فیس بک ڈاکٹر شہزاد وسیم)

سینیٹ کے افسر کے مطابق ’بلوں کی گمشدگی پر سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے وزارت پارلیمانی امور سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے اور اس باب میں کیے جانے والے دعوؤں کی حقیقت نعروں سے زیادہ کچھ نہیں۔‘
ایوانِ صدر کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پارلیمنٹ سے بلوں کو پریذیڈنٹ آفس بھیجنے کی نگرانی پارلیمان کرتی ہے اور یہ عمل باقاعدہ ایک قانونی طریقہ کار کے تحت انجام پاتا ہے۔‘

شیئر: