Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے احتساب عدالت کا 2018 کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
علاوہ ازیں نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کی اپیل واپس لے لی ہے۔
نواز شریف اپنے وکلا اور لیگی قیادت کے ہمراہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور ان کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل پیش کیے۔
وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سیکشن 9 اے سے بری قرار دیا تھا، اس کیس میں اب بس سیکشن 9 اے 5 بچا ہے جو آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق ہے۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے 5 پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ سیکشن 9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں اور ان سیکشنز کے مطابق ملزم کو پبلک آفس ہولڈر، بینامی دار ثابت کیا جائے۔
’سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ ملزم کے اثاثے اس کے آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے کیا ثابت کرنا ہوتا ہے؟ جس پر نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا ہوتا ہے، اُس کے بعد پراسیکیوشن نے زیرکفالت اور بےنامی داروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔

اسلام ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کا 2018 کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

’پراسیکیوشن نے پھر آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن نے ذرائع آمدن کی اثاثوں سے مطابقت دیکھنی ہوتی ہے۔‘
امجد پرویز نے کہا کہ نیب نواز شریف پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن نے ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے یہ پراپرٹیز کب لیں؟ 
امجد پرویز نے جواب دیا کہ پورے ریفرنسز میں نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
’1993 سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں۔ ان پراپرٹیز کے حوالے سے اپیل کنندہ کا کوئی تعلق نہیں۔ پراسیکیوشن نے ریفرنس میں نہیں بتایا کہ ان پراپرٹیز سے کیا تعلق ہے۔‘
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جے آئی ٹی، نیب کی رپورٹس، ریفرنس، بیان، کسی جگہ بھی ان پراپرٹیز کی مالیت نہیں لکھی گئی ہے، کوئی صفحہ ایسا موجود نہیں جو ثابت کرے کہ نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے کوئی تعلق ہے۔
’واجد ضیاء نے بھی جرح کے دوران مانا کہ میرے پاس نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا ان تمام دستاویزات میں پراپرٹیز کے حصول کی تاریخ اور ان کی مالیت موجود نہیں؟
اس پر امجد پرویز نے کہا کہ کچھ دستاویزات میں ہے لیکن ان پراپرٹیز کا نواز شریف سے تعلق ثابت کرنے کے حوالے سے کچھ موجود نہیں۔
سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے۔ نہ تو زبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہے کہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہی ہوں۔ استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز، نواز شریف کے زیر کفالت تھے۔‘

نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کی اپیل واپس لے لی۔ فوٹو: اے ایف پی

امجد پرویز نے کہا کہ بچوں کے نواز شریف کی زیر کفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
 ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں نواز شریف کو 10 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کر دیا۔ جبکہ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی، عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
رواں سال اکتوبر کے آخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیلیں بحال کر دی تھیں جس کے بعد ان دونوں مقدمات کو میرٹ پر سن کر مسلم لیگ ن کے قائد کی بریت یا سزا سے متعلق حتمی فیصلہ سنایا جانا تھا۔

شیئر: