Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھٹو صدارتی ریفرنس، عدالت کے باہر ’تین بڑوں‘ کا پروٹوکول

پاکستان کی سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے پر صدارتی ریفرنس گیارہ سال بعد سماعت کے لیے مقرر ہوا تو گویا پیپلز پارٹی کے دور دراز کے علاقوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملنے کا ایک اور موقع میسر آیا۔
منگل کو نو رکنی عدالتی بینچ نے ساڑھے گیارہ بجے سماعت کا آغاز کرنا تھا اور اس سے قبل ہی یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کارروائی براہ راست نشر کی جائے گی اس لیے پیپلز پارٹی کے کارکن ججز کو دیکھنے یا وکلا کے دلائل سننے نہیں بلکہ اپنی قیادت کو دیکھنے اور ملنے ساڑھے نو بجے ہی سپریم کورٹ کے باہر موجود تھے۔
گیارہ بجے جب سابق صدر آصف زرداری اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ایک ساتھ مگر الگ الگ گاڑیوں میں عدالت پہنچے تو سپریم کورٹ کا احاطہ وہاں موجود کارکنوں اور پیپلز پارٹی کے وکلا کی جانب سے لگائے جانے والے جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھا۔
پارٹی کے چیئرمین کی آمد سے قبل متعدد سینیئر رہنما کمرہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے جن میں قائم علی شاہ اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے۔
ججز کے آنے سے قبل ہی کمرہ عدالت کھچا کچھ بھر چکا تھا اور سابق صدر آصف زرداری سب سے آگے والی رو میں درمیان کی نشست پر بیٹھے تھے، اُن کے دائیں بلاول بھٹو اور بائیں جانب راجہ پرویز اشرف بیٹھ گئے۔
صحافی بلاول بھٹو زرداری سے گفتگو کرنے لگے تو اپنے لیڈر سے ملنے آںے والے کئی کارکن اور وکیل مایوس دکھائی دینے لگے۔
خاتون عدالتی معاون نے پہلی رو سے بھیڑ کو ہٹانے اور ڈیکورم بحال کرنے کے لیے آواز لگائی کہ ’کورٹ آ رہی ہے۔‘
جمگٹھا پھر بھی پوری طرح نہ چھٹا تو عدالتی معاون کو دوبارہ کہنا پڑا کہ ’ایک طرف ہو جائیں۔‘
نو رکنی عدالتی بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں مقررہ وقت سے دس منٹ کی تاخیر پر کمرہ عدالت میں آیا۔
بلاول بھٹو زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت کے روسٹرم پر آئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ’اس بینچ میں شامل ججز میں سے کسی نے بھی یہ صدارتی ریفرنس پہلے نہیں سُنا۔ اس پر معذرت خواہ ہوں کہ یہ مقدمہ بروقت سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جا سکا۔‘
اٹارنی جنرل اور وکیل فاروق نائیک ججز کے سوالات کے جواب دیتے تو بلاول بھٹو زرداری اپنی بائیں جانب جھُک کر سابق صدر زرداری کو اس کے بارے میں آگاہ کرتے جو شاید عدالتی کارروائی کو درست طور پر نہیں سُن پا رہے تھے۔
ایک موقع پر بلاول بھٹو زرداری اپنی نشست سے اُٹھ کر وکیل فاروق نائیک کے پاس گئے اور کوئی بات کرنے کے بعد شیری رحمان سے بھی کچھ کہا۔
اس کے بعد اگلی نشستوں پر بیٹھے رضا ربانی اور بیرسٹر مسعود کوثر کو اشارہ کیا گیا کہ وہ فاروق نائیک کے لیے نشست خالی کریں مگر بلاول بھٹو کے وکیل نے منع کر دیا کہ وہ اپنی نشست پر ہی ٹھیک ہیں۔
عدالت میں سابق وزیر قانون اور بھٹو صدارتی ریفرنس کے پہلے وکیل بابر اعوان کا بھی ذکر ہوا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ صدارتی ریفرنس میں توبہ کا تذکرہ کیوں ہے؟ جس پر وکیل فاروق نائیک نے لاعلمی ظاہر کی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر رضا ربانی نے کہا کہ وہ بھی اس پر معاونت کرنے سے قاصر ہیں۔

پیپلز پارٹی کے کارکن ججز کو دیکھنے یا وکلا کے دلائل سننے نہیں بلکہ اپنی قیادت کو دیکھنے اور ملنے ساڑھے نو بجے ہی سپریم کورٹ کے باہر موجود تھے: فائل فوٹو پی پی پی

اس دوران رضا ربانی کے ساتھ بیٹھے پیپلز پارٹی کے ایک اور وکیل نے آہستہ سے کہا کہ ’یہ بابر اعوان کی انگریزی ہے۔‘
بھٹو صدارتی ریفرنس میں مخالف فریق صرف ایک ہی نظر آئے اور وہ اصل مقدمے کے مدعی سینیئر وکیل احمد رضا قصوری ہیں۔ وہ بار بار اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے نشست سے اُٹھ کر روسٹرم پر آتے رہے۔ اور چیف جسٹس قاضی فائز اُن کو مطمئن کرتے رہے کہ تمام وکلا کو سنا جائے گا وہ تشریف رکھیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پہلے سے مقرر کیے گئے کئی عدالتی معاون اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اعتزاز احسن کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس مقدمے میں معاونت سے دستبردار ہو رہے ہیں۔
عدالتی معاون اور سینیئر وکیل علی احمد کُرد نے روسٹرم پر آ کر شکایت کی کہ ججز نے دنیا سے جانے والے عدالتی معاونین کے بارے میں افسوس کا اظہار اور تعزیتی کلمات نہیں کہے جس پر چیف جسٹس نے اُن کو ٹوکا اور کہا کہ باہر میڈیا سے جا کر بات کر لیجیے، یہ نہایت سنجیدہ نوعیت کا کیس ہے عدالت کو سننے دیں۔
ڈیڑھ گھنٹے کی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کا خلاصہ ’آرڈر آف دی ڈے‘ میں لکھوانا شروع کیا تو پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے کتنے ورثا حیات ہیں؟
وکیل فاروق نائیک نے بتایا کہ ایک بیٹی حیات ہیں جو لندن میں رہائش پذیر ہیں۔
چیف جسٹس کے سوال پر بلاول بھٹو روسٹرم پر آئے اور ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے پوتیوں کی کُل تعداد کے بارے میں آگاہ کیا۔
عدالت نے حکمنامے میں لکھوایا کہ پہلا سوال صدارتی ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے کا ہے، اگر اس حد کو عبور کر لیا جاتا ہے تو پھر عدالتی معاونین قانونی و آئینی سوالات پر معاونت کریں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ’ معذرت خواہ ہوں کہ یہ مقدمہ بروقت سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جا سکا۔‘ فائل فوٹو اے ایف پی

عدالت نے فوجداری معاملے پر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج منظور احمد ملک کی خدمات بھی حاصل کرنے کی ہدایت کی۔
معاونین کے سامنے سوالات رکھے گئے ہیں کہ :
کیا فوجداری مقدمے کی سماعت براہ راست ہائی کورٹ میں کی جا سکتی تھی جیسا کہ ذوالفقار علی  بھٹو کے کیس میں ہوا؟
مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے پاس کیا سکوپ تھا؟
کیا اس سے پہلے اس طرح کی کوئی عدالتی نظیر یا مثال موجود تھی کہ ٹرائل ہائیکورٹ میں ہوا ہو؟
لاہور ہائی کورٹ نے یہ ٹرائل کس طرح کیا؟ کیا اس پر کوئی اعتراض اُٹھایا گیا تھا اور اگر ایسا کیا گیا تو اُس پر جواب کیا تھا؟
ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کے مقدمے میں گواہوں یا وعدہ معاف گواہ کے بیان کی حیثیت کیا تھی؟
بلاول بھٹو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دو عدالتی معاونین فیصل صدیقی اور سلمان صفدر کے ناموں پر اعتراض کیا اور بتایا کہ اس حوالے سے اُن کو پارٹی کی ہدایات ہیں۔
مقدمے کی سماعت اگلے ماہ جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کو مزید تاخیر کا شکار نہیں کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر سُن کر نمٹا دیں گے۔
سپریم کورٹ سے باہر نکلا تو عدالت کے مرکزی دروازے کے ایک طرف بلاول بھٹو زرداری کے پروٹوکول اور سکیورٹی کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ آگے بڑھا تو سامنے ہائیکورٹ کے باہر سابق وزیراعظم نواز شریف کے قافلے کی سکیورٹی کے لیے اہلکار سرگرم تھے جو عدالت عالیہ پہنچے تھے۔ یوٹرن لیا تو آگے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں نے گاڑیاں روک دیں تاکہ نگراں وزیراعظم کا قافلہ اپنے دفتر سے سکیورٹی میں نکل سکے۔

شیئر: