Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ یا ’مقدمے کا قتل‘

’صدر ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی رحم کی عرضداشت کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور بغیر پڑھے ہی مسترد کر دیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
ایوب خان کے 11 سالہ اقتدار کا سحر توڑنے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار سب سے اہم تھا۔ سنہ 1966 سے 1971 کے برسوں میں یوں لگتا تھا کہ جیسے عوام ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بنے ہوں اور بھٹو عوام کے لیے۔ اس ہر دلعزیزی کا نتیجہ تھا کہ 1970 کے الیکشنز میں عوام نے روایتی سیاسی قبیلے اور جاگیرداروں پر آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ انقلابی رومانیت پسند بھٹو کو ترجیح دی۔
چونکہ وہ کسی سازش کے ذریعے برسراقتدار نہ آئے تھے اس لیے اپنی حکومت کا آغاز ایک عوام  پسند رہنما کی حیثیت سے کیا۔ (گذشتہ مضمون میں بھٹو کے عروج کا مفصل ذکر ہو چکا ہے)
پی این اے کی تحریک کی آڑ میں بھٹو کی حکومت ختم کرنے والے ضیا الحق نے بھٹو کے جسمانی خاتمے کے لیے بھی اپوزیشن کو استعمال کیا۔ اگست 1978 میں بننے والی 21 رکنی کابینہ میں سے 12 کا تعلق پی این اے سے تھا۔ جن کی وزارتوں کی مدت بھٹو کی موت کے ایک ہفتے بعد ہی ختم ہو گئی۔

 

قومی اتحاد کے سیاست دانوں کے علاوہ ضیاالحق نے بھٹو کی سیاسی اور جسمانی موت کے لیے عدلیہ کو کیسے استعمال کیا اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔
’میں لاہور ہائی کورٹ میں کسی ذاتی کام سے گیا تھا۔ میرا گزر چیف جسٹس کی عدالت کے پاس سے ہوا۔ معلوم کرنے پر کہ کیا چیف جسٹس موجود ہیں ان کے سیکریٹری سے کہا کہ پوچھ کر بتائے کہ کیا میری ملاقات ہوسکتی ہے؟ مشتاق نے مجھے اندر بلا لیا۔ میں نے پوچھا سنا ہے تم پانچ آدمیوں کو ایک آدمی کے قتل کے الزام  میں پھانسی پر لٹکا رہے ہو۔
اگر یہ خبر درست ہے تو کیا اسے احساس نہیں کہ اگر اس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تو وہ اپنی ذات کو پیپلز پارٹی کی انتقامی کارروائی سے کیسے بچائے گا؟اس کا جواب تھا آپ فکر نہ کرو مجھے سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے حلف پر یقین دلایا ہے کہ میرا فیصلہ سپریم کورٹ میں بحال رکھا جائے گا۔‘
یہ واقعہ معروف سیاست دان سردار شوکت حیات نے اپنی کتاب ’گم گشتہ قوم‘ میں بیان کیا ہے۔ یہاں لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق احمد سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے بارے میں گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں چار اپریل 1979 کو نواب احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا دی گئی۔
بظاہر تو یہ ایک قتل کا مقدمہ تھا مگر اس سے جڑے بعض  کرداروں کے ذہن میں پلتی سازشوں اور قلب میں جاگزیں بغض اور ہوس اقتدار کی بدولت تاریخ کے کٹہرے میں یہ ’مقدمے کا  قتل‘ قرار پایا۔

اقتدار سے محرومی کے بعد بھٹو نے ایک انٹرویو میں عوام کے بجائے طاقتوروں پر اعتماد کو اپنی غلطی قرار دیا (فوٹو: اے ایف پی)

ذوالفقار علی بھٹو کی عنایت سے فوج کے سربراہ اور اپنی موقع پرستانہ حکمت عملی سے ملک کے حکمران بننے والے ضیا الحق نے 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا تھا۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد یکم اگست سے سیاسی سرگرمیوں کی بحالی شروع ہوگی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر کو  زیر حراست ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست  ضمانت منظور کرلی۔
رہائی کے بعد جب وہ مختصر دورے پر لاہور پہنچ گئے تو جیسے سارا شہر ان کے استقبال کو اُمڈ آیا۔ خالد حسن کے بقول کچھ عرصہ قبل اصغر خان زندہ باد کے نعرے لگانے والے لاہوریوں نے بھٹو سے کہا کہ وہ ان کی قیادت کرتے ہوئے گورنر ہاؤس پر قبضہ کرلیں۔
اس جذباتی استقبال نے بھٹو کے مخالفین کا چین چھین لیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ ابھی بھٹو ناکام نہیں ہوا۔ اس موقع پر الیکشن کا مطلب بھٹو کی نئی طاقت و توانائی کے ساتھ واپسی تھا۔
17 ستمبر کو انہیں مارشل لا ریگولیشن کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ضیا الحق نے 29 ستمبر کو انتخابات ملتوی کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے بدترین سیاسی مخالف اصغر خان اپنی کتاب میں My Political Journey میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹو کے خلاف کارروائی کے محرکات میں لاہور کا استقبال اور نئے انتخابات کی صورت میں ان کی کامیابی کے امکانات کا ڈر شامل تھا۔

1970 کے الیکشنز میں عوام نے جاگیرداروں پر آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ بھٹو کو ترجیح دی (فوٹو: وکی پیڈیا)

اصغر خان کے بقول 15 جولائی 1977 کو مفتی محمود کے ذوالفقارعلی بھٹو پر مقدمہ چلانے کے سوال پر ضیا الحق نے واضح جواب دیا تھا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ مگر تین ستمبر کو انہیں قتل کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ اصغر خان کے مطابق مقدمے کے دوران ہی ضیا الحق نے کہا تھا کہ وہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیں گے۔
ضیا حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کی چھان پھٹک کے بعد یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے ’وائٹ پیپرز‘ میں ان پر انتخابی دھاندلی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر الزامات عائد کیے۔ مگر یہ حربہ موثر نہ ہو سکا تو انہیں چار سال پرانے ایک مقدمہ قتل میں ملوث کردیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے ایم این اے احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان نومبر 1974 میں قتل کر دیے گئے تھے۔ اس دور کے انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب راؤ عبدالرشید کے مطابق قصوری کی طرف سے قتل کی ایف آئی آر میں بھٹو کا نام شامل کرنے کا مطالبہ انہوں نے تسلیم کر لیا۔
ان کے مطابق ’اگر یہ کوئی سازش ہوتی اور  بھٹو نے کی ہوتی تو ’کیا ہم احمد رضا قصوری سے کہتے کہ جو چاہو ایف آئی آر دے دو۔
چار برس پرانی ایف آئی آر کو ازسرِ نو زندہ کر کے بھٹو کے ٹرائل کا آغاز ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق نے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔ جس میں جسٹس زکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گل باز خان شامل تھے۔ بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو جان بوجھ کر بینچ سے باہر رکھا گیا۔

قتل کی چار برس پرانی ایف آئی آر کو ازسرِ نو زندہ کر کے بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا (فائل فوٹو)

معروف ماہر قانون حامد خان ایڈووکیٹ اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں ’مولوی مشتاق احمد نے بینچ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا۔ ذکی الدین پال پرانا مسلم لیگی تھا جو بھٹو کا سخت مخالف تھا۔ آفتاب حسین مولوی مشتاق کا منظور نظر تھا اور اس نے اسی کے مطابق چلنا تھا۔باقی دو ججز اختلافی فیصلے نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔‘
مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد اور نفرت ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ان کے دور میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی جنون کی حد تک خواہش میں انہوں نے سپریم کورٹ کا جج بننا بھی قبول نہ کیا۔ بھٹو کی حکومت نے ان سے آٹھ سال جونیئر جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنایا۔
انہوں نے استعفیٰ نہ دیا مگر بھٹو کے خلاف دل میں مستقل عناد پال لیا۔ضیا الحق نے اس ذاتی رنجش کا فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں قائم مقام چیف جسٹس بنایا۔
ذوالفقار علی بھٹو اس کی نفرت سے واقف تھے اس لیے انہوں نے ٹرائل کورٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔ مقدمے کی منتقلی کی ان کی درخواست کو بھی مولوی مشتاق نے اپنے چیمبر میں سماعت کے بعد مسترد کیا۔
فیڈرل سکیورٹی فورس کے دیگر چار اہلکاروں کا ٹرائل  بھی اسی مقدمے میں ہو رہا تھا۔ ابتدا میں کورٹ کی کارروائی عام لوگوں کے لیے کھلی تھی مگر 25 جنوری 1978 کے بعد اسے خفیہ قرار دے دیا گیا۔  
18 مارچ 1978 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔

ذوالفقار علی بھٹو رفتہ رفتہ غیر منتخب مشیروں کے نرغے میں گرتے چلے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس آفتاب حسین کے تحریر کردہ فیصلے میں بھٹو کے اسلامی روایات کی پاسداری پر غیر ضروری سوالات بھی اٹھائے گئے۔ مزید برآں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نااہل اور حلف کی خلاف ورزی کرنے والا قرار دیا گیا ۔ان تمام الزامات کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ عمومی طور پر قتل میں شریک مجرم کو سزائے موت نہیں دی جاتی۔ عدالتی تاریخ میں اس حوالے سے یہ فیصلہ قانونی تضادات کا مجموعہ تھا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل اور دلائل میں ایک سال گزر گیا۔ چھ فروری 1979 کو چار اور تین کے تناسب سے منقسم فیصلے میں ہائی کورٹ کی سزا کو بحال رکھا گیا۔ فیصلہ دینے والا بینچ ابتدا میں نو ججوں پر مشتمل تھا مگر تکنیکی انداز میں دو ججوں کو مطلوبہ فیصلے کی راہ ہموار کرنے کے لیے بینچ سے الگ کر دیا گیا۔
حامد خان ایڈووکیٹ کے مطابق ’ایک جج جسٹس قیصر خان کو مقدمے کی سماعت تک بینچ میں ایڈہاک جج کے طور پر شامل  رکھا جانا چاہیے تھا۔ ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی وجہ دوران سماعت ٹرائل کورٹ کے بارے میں ان کے مخالفانہ نظریات کا اظہار تھا۔
حامد خان مزید لکھتے ہیں کہ ’بیماری سے صحت یابی کے باوجود دوسرے جج جسٹس وحید الدین کو بینچ میں شامل رہنے کی اجازت نہ دی گئی حالانکہ انہوں نے اس کی استدا بھی کی تھی۔چیف جسٹس نے ان کا ارادہ جان لیا تھا کہ یہ بھٹو کی رہائی کے حق میں ووٹ دے گا۔

جب بھٹو اقتدار سے معزول ہوئے تو اس وقت ان کے گرد کوئی ایسا فرد نہ تھا جسے حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ کہا جا سکتا ہو (فائل فوٹو)

ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی، تاہم اس میں صدر کے پاس رحم کے اختیار کو استعمال کرنے کا راستہ دکھایا گیا۔
رحم کی درخواست کے بارے میں اس وقت کے سیکریٹری داخلہ روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہم نے اپنی سمری میں صاف لکھ دیا کہ صدر کے پاس رحم کے خصوصی استعمال پر کوئی قدغن نہیں۔ یکم اپریل 1979 کو وزارت قانون کے جوائنٹ سیکریٹری ارشاد خان اور جنرل کے ایم عارف بھٹو کیس کی سمری لے کر ضیا الحق کے پاس گئے۔‘
روائیداد خان کے بقول ارشاد خان نے انہیں بتایا کہ ’جب وہ سمری لے کر صدر کے پاس گئے تو صدر نے رحم کی عرضداشت کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور بغیر پڑھے ہی مسترد کر دیا۔‘
ممتاز انڈین صحافی کلدیپ نیئر ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ایک انٹرویو کے لیے وہ ضیا الحق سے بھی ملنے گئے۔ اس دوران انہوں نے ضیا الحق سے بھٹو کی قسمت پر بھی بات کی۔ وہ اپنی آپ بیتی میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’جس سرسری انداز میں اس نے بھٹو کی اپیل پر رائے دی اس سے بھٹو کے لیے ان کی نفرت و حقارت چھلکتی تھی۔ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضیا اسے پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اب وہ صرف قانونی تقاضے پورے کرنے کے چکر میں ہے۔‘
یہ عجیب بات تھی کہ چار اپریل کو ایک چیف آف آرمی سٹاف جو خود آرمڈ کور کا افسر تھا، اس نے آرمڈ کور کے ’کرنل چیف‘ کو پھانسی دے دی۔ یہ تاریخ کا ستم تھا کہ تقریباً تمام مسلم ممالک کے سربراہوں کی رحم کی اپیل کے باوجود اسلامی کانفرنس کے اس وقت کے چیئرمین کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

پی این اے کی تحریک کی آڑ میں ضیا الحق نے بھٹو کے جسمانی خاتمے کے لیے بھی اپوزیشن کو استعمال کیا (فوٹو: فلکر)

ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا کے ان کرشمہ ساز لیڈروں  میں شمار ہوتے تھے جنہیں شہرت اور اقتدار دونوں ملے۔ ان کا موازنہ اپنے دور کے نامور رہنماؤں سوئیکارنو، جمال عبد الناصر اور نکرومہ لومبا سے کیا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں جواہر لعل نہرو اور بھٹو میں تاریخی اور سماجی شعور کا مالک ہونے کی قدر مشترک دونوں میں تھی۔
اس کے باوجود ان کا المناک انجام پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایسا سوال ہے جس کے جواب کی کئی جہتیں ہیں۔
وہ 1970 میں عوام کے سروں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے راستے ایوان اقتدار کی دہلیز تک پہنچے تھے، مگر صرف سات برسوں بعد انہی گلیوں میں ان کے خلاف بپھرے لوگوں کا ہجوم کیوں تھا؟
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں خرابی کی ایک صورت یہ بھی مضمر ہے کہ ابتدائی دنوں کے جانثار کارکنان اور نظریاتی رہنما حصول اقتدار کے بعد سیاسی و انتظامی تضادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
جب بھٹو اقتدار سے معزول ہوئے تو اس وقت ان کے گرد کوئی ایسا فرد نہ تھا جسے حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ کہا جا سکتا ہو۔ ان کے قریبی اور نظریاتی ساتھی آہستہ آہستہ یا تو حکومت سے باہر کر دیے گئے یا انہیں پچھلی صفوں میں دھکیلا جا چکا تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے، جے اے رحیم اور معراج محمد خان کی جگہ انہوں نے لی جو 1970 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے خلاف صف آرا تھے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے سیاسی مخالف خان عبدالقیوم خان بھٹو دور میں وزیر داخلہ بن گئے۔ پنجاب کے ایک اور جاگیردار ممتاز دولتانہ سفارت کاری کے حقدار قرار پائے۔

جب بھٹو کی حکومت بحران کی زد میں آئی تو انہوں نے غیر منتخب قوتوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا (فائل فوٹو)

بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے خاتمے اور ان کے مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری نے ترقی پسند اور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے طبقے کو بھٹو سے بدظن کر دیا۔ سردار شوکت حیات اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے سردار شیر باز مزاری کے ذریعے نیپ اور بھٹو کے درمیان غلط فہمیاں دور کرکے مصالحت کی کوشش کی جسے خان عبدالقیوم خان نے مختلف حربوں اور چالبازیوں سے ناکام بنا دیا۔ ان کی خان عبدالولی خان کے ساتھ پرانی سیاسی مخاصمت بھی تھی۔ وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے سرکاری مشینری کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر کے دو سیاسی قوتوں کے درمیان خلیج مزید گہری کردی۔
سیاسی کلچر میں اقتدار کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے سمجھتوں اور مصلحت کی طویل تاریخ ہے۔ اسی صورت حال کا سامنا بھٹو کو بھی کرنا پڑا۔ روئیداد خان کے بقول پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم کے بعد بھٹو وہ واحد رہنما تھے جو عوام کو حرکت میں لائے۔
جب ان کی حکومت بحران کی زد میں آئی تو عوامی طاقت پر بھروسہ اور درمیانے طبقے کی سیاسی قوت کے بجائے غیر منتخب قوتوں اور طاقت کے ایوانوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ طاقتیں بھٹو کی کمزوریوں سے واقف ہو گئیں اور ان کی سیاسی تنہائی سے فائدہ اٹھانے لگی۔

سیاسی ماہرین کے بقول ضیا الحق ہر صورت بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر چکے تھے (فائل فوٹو)

روئیداد خان نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کا موازنہ شیخ مجیب الرحمٰن سے کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار مجیب الرحمٰن کی رہائی عوامی طاقت اور احتجاج کی مرہون منت تھی جب کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی گرفتاری اور ناانصافی پر مبنی ٹرائل کے دوران کوئی عوامی طاقت ان کو بچانے کے لیے سڑکوں پر موجود نہ تھی۔
خالد حسن لکھتے ہیں کہ ’پی این اے کی تحریک کے دوران ایک اجلاس میں پیرزادہ نے تجویز دی کے عوام کا بھٹو پر اعتماد جانچنے کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے۔ جنرل ضیاالحق نے ریفرنڈم کی تجویز کو پسند کرتے ہوئے کہا کہ ’سر ہمارے پاس اپنے جوانوں کو تسلی دینے کے لیے کچھ تو ہونا چاہیے۔‘
16 مئی کو قومی اسمبلی نے ریفرنڈم بل پاس کر دیا۔ ادھر پی این اے نے اسے رد کر دیا۔ بقول خالد حسن ’ضیا الحق نے یہ کہتے ہوئے اس کی حمایت سے انکار کر دیا کہ جوانوں کے اطمینان کے لیے یہ تجویز ناکافی ہے۔‘
اقتدار سے محرومی کے بعد بھٹو نے لندن سے شائع ہونے والے اخبار ’ملت‘ کے ایڈیٹر انعام عزیز کو انٹرویو میں عوام کی طاقت کے بجائے طاقتوروں پر اعتماد کو اپنی غلطی قرار دیتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔
آج بھی ایوان اقتدار کی راہداریوں میں غیر منتخب مشیروں اور حکمرانوں کی قربت کے دعویدار ٹیکنوکریٹس کا چرچا عام ہے۔ بھٹو بھی رفتہ رفتہ ایسے مشیروں کے نرغے میں گرتے چلے گئے۔

ایوب خان کے 11 سالہ اقتدار کا سحر توڑنے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار سب سے اہم تھا (فائل فوٹو)

راؤ عبدالرشید نے 1977 میں الیکشن کے لیے پارلیمنٹ کی تحویل میں بھٹو کے مشیر رفیع رضا کے مشکوک کردار پر سوالات اٹھائے۔ بھٹو سے وابستہ ہونے سے قبل وہ فلپائن کے ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ راؤ رشید کے خیال میں وہ امریکہ کے مفاد کے لیے کام کرتے تھے اور بھٹو کے زوال میں ان کا کردار تھا۔
اسی طرح فیڈرل سکیورٹی فورس کے مسعود محمود  پر حد سے زیادہ اعتبار اور قربت نے  بھٹو کو موت کے پھندے تک پہنچا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو میں یہ خوبیاں اور خامیاں تو موجود تھیں لیکن ان کے تاریخی مقام کا اصل فیصلہ ان کی چھوڑی ہوئی روایات کی بنا پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے محنت کش عوام کو خود اعتمادی سے جینا سکھایا۔
بقول خالد حسن ’انہوں نے ایک بار اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ لوگ انھیں ایک انقلابی اور شاعر کی حیثیت سے جانیں۔ آج وہ سندھ کے تاریخی صحرا میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ شاید انہیں علم ہو یا نہ ہو کہ عوام انہیں ایک انقلابی اور شاعر کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔‘

شیئر: