Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی زبان کا عالمی دن، ’پاکستان میں جڑیں بہت گہری‘

مختلف عرب خطوں میں بولی جانے والی عربی کے لہجے اور تلفظ میں کافی فرق ہے(فائل فوٹو: عرب نیوز)
’آج کے لوگ پریکٹیکل عربی یعنی جو زبان ذرائع ابلاغ وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے ، وہ پہلے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔‘
یہ الفاظ ہیں عربی زبان و ادب کے عالم، اردو شاعر اور مصنف ڈاکٹر خورشید رضوی کے، جن سے عربی زبان کے عالمی دن کے حوالے سے اردو نیوز نے رابطہ کیا۔
اردو کے ساتھ عربی کا کیا تعلق ہے؟ اس سوال کے جواب میں خورشید رضوی کہتے ہیں کہ ’انگریزی زبان میں جو حیثیت یونانی اور لاطینی کی رہی ہے وہی حیثیت اردو کے لیے عربی اور فارسی کی ہے۔‘
’یہاں عربی کے علما کی تعداد نسبتاً کم رہی ہے لیکن تقسیم پاکستان کے بعد بہت سی چیزیں ایک دوسرے پر اوور لیپ کرنے لگیں۔ پھر 1970 کی دہائی میں پاکستانیوں نے عرب ممالک میں معاش کے لیے کثرت سے جانا شروع کیا۔ اس سے قبل لوگ زیادہ تر حج کے لیے ہی سعودی عرب جایا کرتے تھے۔‘
’جب کوئی چیز معاش سے وابستہ ہو جاتی ہے تو اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ جب لوگ معاش کے لیے ان ممالک میں جانے لگے تو وہ عربی کی عمومی بولی سے واقف ہو گئے جسے ’دارجہ‘ کہتے ہیں۔‘
عربی زبان کے معیاری انداز کو فُصحیٰ کہا جاتا ہے جو کم و بیش ہر جگہ ایک ہی طرح لکھی اور بولی جاتی ہے لیکن مختلف عرب خطوں میں بولی جانے والی عربی کے لہجے اور تلفظ میں کافی فرق ہے۔ دفاتر اور کام کی جگہوں پر جو زبان بولی جاتی ہے، اسے ’دَارِجہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے خورشید رضوی نے کہا کہ ’پاکستان میں جو بھی عربی پڑھے گا وہ فُصحیٰ ہی پڑے گا اور دوسرے یہ کہ قرآن مجید کا بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے فُصحیٰ عربی زبان کو ڈرفٹ نہیں ہونے دیا۔‘

پاکستان میں عربی زبان کے رجحان کا سب سے بڑا سبب دینی ہے (فائل فوٹو: آئی ایچ کائرو ڈاٹ کام)

اردو زبان سے عربی کے تعلق پر خورشید رضوی کہتے ہیں کہ ’ہم نے اردو زبان کے لیے عربی کے گرائمر کے کئی اصول لیے ہیں حالانکہ اردو میں بعض جگہ ان کا اطلاق نہیں بھی ہوتا۔‘

’پریکٹیکل عربی آج کے لوگ زیادہ جانتے ہیں‘

’ہمارے ہاں ایک جانب عربی کی تعلیم کا انحطاط ہے تو دوسری جانب اس کی ترویج کے لیے ذرائع بھی پہلے کی نسبت زیادہ سہل ہو گئے ہیں۔ عربی زبان کے حوالے سے دینی مدارس میں بھی جدید رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے اب جو بھی طبقہ عربی پڑھنا چاہتا ہے وہ انٹرنیٹ کے ذریعے یہ آسانی سے کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آج کے لوگ پریکٹیکل عربی یعنی جو زبان ذرائع ابلاغ وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے وہ پہلے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔‘

’پاکستان کا خلیجی ممالک سے تعلق کا ذریعہ‘

پاکستان میں عربی زبان کی فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک سوسائٹی ’عشاق العربیہ‘ کے بانی زاہد عبدالشاہد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی قومی زبان اردو کے اکثر حروف تہجی عربی کے مماثل ہیں اور دونوں زبانوں کی تحریر کا انداز بھی ایک ہی ہے کہ دونوں دائیں جانب سے لکھی جاتی ہیں۔  اس کے علاوہ اردو اور عربی کے بے شمار الفاظ مشترک ہیں۔ باقی مذہبی بنیادوں پر عربی کے ساتھ تعلق سے تو سبھی واقف ہیں۔‘
’پاکستان کے سکولوں میں عربی بطور لازمی مضمون پڑھائی جاتی ہے اور آئین میں بھی قرآن کی زبان کی ترویج کے لیے شق موجود ہے۔‘
ایک پاکستانی کے لیے عربی زبان سیکھنے کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں زاہد عبدالشاہد نے کہا کہ’عربی زبان اقوام متحدہ کی پانچ زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ 26 ممالک کی سرکاری زبان ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کا خلیجی ممالک سے جو تعلق ہے وہ اس زبان کی ترویج کی وجہ سے مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔‘
زاہد عبدالشاہد نے اپنی سوسائٹی ’عشاق العربیہ‘ کے متعلق بتایا کہ ’اس کا آغاز عربی کا ذوق رکھنے والے ہمارے کچھ طلبہ دوستوں نے کیا، بعد ازاں 2012 میں ہم نے اسے باقاعدہ ایک سوسائٹی بنایا اور 2014 میں پاکستان میں ہم ہی نے پہلی بار 18 دسمبر کو عربی کا دن منایا تھا اور اس کے بعد سے ہم ہر سال یہ دن مناتے ہیں۔‘
’اس وقت ’عشاق العربیہ‘ کے تحت عربی سکھانے کے کئی آن لائن کورسز ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی ہم الگ سے کورس منعقد کر چکے ہیں۔‘

عربی شاعری فنی خصوصیات سے مالا مال

لاہور میں مقیم عربی شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے احمد تراث کہتے ہیں کہ ’برصغیر میں اسلام کے مبلغین نے عربی ہی کو ذریعہ اظہار بنایا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے عربی زبان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔‘
’عربی زبان کی شاعری فنی خصوصیات سے مالا مال ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں پر عربی لٹریچر کے اثرات کافی نمایاں ہیں۔ یہ پہلو بھی اس زبان کو اہم بناتا ہے۔‘
دوسری بات یہ ہے کہ ہم کوئی بھی زبان اس لیے سیکھتے ہیں کہ اس زبان کے علمی و ادبی سرمائے تک رسائی حاصل کر سکیں۔ عربی کے اندر مسلمانوں نے تراجم اور اختراع کے ذریعے بہت سے علوم و فون کی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔‘

اردو زبان کا تعلق عربی زبان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی بنیادوں پر بھی ہے (فائل فوٹو: سکول ایڈوئزر)

دوسری جانب احمد تراث یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں جن تعلیمی گاہوں میں عربی پڑھائی جاتی ہے، وہاں اس کے گرائمر پر ہی زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس زبان کی ادبی اور فنی حیثیت پر کو نسبتاً کم بات کی جاتی ہے۔‘

’پاکستانی بچے چھ ماہ میں مکمل عربی بولنے لگے‘

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عارف صدیق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے عوام میں عربی کا شوق کافی زیادہ ہے اور یونیورسٹیوں کے عربی شعبوں میں طلبہ کی بڑی تعداد داخلہ لیتی ہے۔ عام لوگ جو عربی نہیں بھی جانتے وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں عربی سیکھنے کا شوق ہے۔‘
ڈاکٹر عارف صدیق نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر بچوں کو عربی سکھانے کے لیے کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ’میں نے بہت چھوٹی عمر کے بچوں پر عربی زبان سکھانے سے متعلق تجربات کیے جن کا بہت حوصلہ افزا نتیجہ سامنے آیا۔ بچے تین سے چھ ماہ میں مکمل عربی بولنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان میں تین بڑے اداروں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، نمل یونیورسٹی اور فلاصلاتی تعلیم دینے والی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں عربی زبان کے شعبوں میں کافی کام ہو رہا ہے۔‘
احمد تراث کے بقول ’لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے اورئینٹل کالج میں مشرقی زبانوں کی کورسز میں سے ایک عربی بھی ہے۔‘

’اردو اور عربی کا تعلق بہت پرانا ہے‘

شاعر اور ادیب رفاقت راضی کا کہنا ہے کہ’اردو اور عربی کا تعلق بہت پرانا ہے۔ دین اسلام کی آمد سے بھی بہت پہلے ہندوستان کے لوگوں کا عرب کے ساتھ ایک تعلق تھا، اشیا کے ساتھ ساتھ بہت سارے الفاظ کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ مثال کے طور پر جو مصالحے وغیرہ یہاں سے جاتے تھے ان کے یہاں کی مقامی زبانوں کے نام عربی میں منتقل ہوئے۔‘
’ایک تعلق تو بنیادی ہے اور وہ دینی ہے۔ یہاں پر کئی سو برس مسلمانوں کی حکومت رہی، دیگر مذاہب کے لوگ بھی عربی زبان سیکھتے رہے ۔ دوسرا اردو زبان کا تعلق عربی زبان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی بنیادوں پر ہے۔ جب خلیجی ممالک میں تجارت بڑھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ بھی اردو سیکھتے ہیں۔‘
’عربی میں تخلیقی ادب کے حوالے سے عالمی سطح کے لکھاری موجود ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کا تعلق عربی زبان سے ہے۔ بیسویں صدی کے کئی اہم شاعر نزار قبانی، محمود درویش، أمل دُنقُل کا تعلق بھی عربی ادب سے تھا۔ علم و ادب کا ذوق رکھنے والے اس ادب کا مطالعہ کرنے کے لیے بھی عربی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

پاکستان میں بعض لینگوئج سنٹرز اور یونیورسٹیوں میں جدید طریقے سے عربی سکھائی جا رہی ہے(فائل فوٹو: اباؤٹ ہر ڈاٹ کام)

آن لائن مارکیٹ سے عربی زبان سیکھنے کا رجحان  بڑھا

رفاقت راضی کے مطابق ’عربی زبان میں یہاں کے بہت سے الفاظ شامل ہوئے خاص طور پر چیزوں کے نام۔ اردو کا زبانوں کے لحاظ سے خاندان اور ہے لیکن اپنے ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے اردو زبان میں عربی کے بہت زیادہ الفاظ مستعمل ہیں۔ اس لیے اردو بولنے والوں کے لیے عربی ایک قریب کی زبان ہے۔ اسی طرح عربوں کے لیے بھی اردو زبان بہت زیادہ اجنبی نہیں ہے۔‘
’پاکستان میں عربی زبان کے رجحان کا سب سے بڑا سبب دینی ہے۔ مدارس عربیہ میں عربی زبان سکھائی جا رہی ہے۔ بعض لینگوئج سنٹرز اور یونیورسٹیوں میں جدید طریقے سے عربی سکھائی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کئی شعبوں میں عرب اساتذہ پڑھاتے ہیں۔‘
’سوشل میڈیا کے ذریعے جو سیکھنے کے ذرائع تھے وہ بہت زیادہ اور آسان ہو گئے۔ مختصر ویڈیوز اور کلپس کے ذریعے عربی زبان سیکھنے اور سکھانے کا عمل جاری ہے۔ اب آن لائن مارکیٹ کی وجہ سے عربی زبان سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘
’پاکستانیوں کو عربی سیکھنے کے کئی فائدے ہو سکتے ہیں ۔ ایک تو دینی فائدہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو علوم و فنون موجود ہیں عربی زبان میں ، اسے سیکھ کر ان سے استفادہ ممکن ہو سکتا ہے۔ تیسرا فائدہ تجارتی، اقتصادی اور معاشی ہے۔ جن لوگوں کا عربوں سے اس نوعیت کا تعلق ہے تو ان کے لیے یہ زبان بہت مفید ہے۔‘

شیئر: