Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر دو گھنٹے بعد موت‘: بچوں کو جنم دیتے ہوئے افغان خواتین کی جان کو خطرہ

افغانستان میں بہت سے خاندان خواتین کو مرد ڈاکٹروں کے پاس بھیجنے سے گریز کرتے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)
زبیدہ کو اپنے بچے کو جنم دینے کے لیے خوست کے دیہی مضافات سے مشرقی افغانستان میں واقع زچگی کے ہسپتال تک سفر کرنا پڑا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں اُن کی یا اُن کے بچے کی جان نہ چلی جائے۔
وہ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے زیرِانتظام ایک ہسپتال کے بستر پر ڈیلیوی کے بعد نیم بے ہوشی کے عالم میں لیٹی تھیں اور اُن کے قریب ہی پنگھوڑے میں اُن کا لاغر بچہ سو رہا تھا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اگر میں گھر پر بچے کو جنم دیتی تو میرے اور بچے کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھیں۔‘
ہسپتال پہنچنے والی تمام خواتین اتنی خوش قسمت نہیں ہیں۔ خوست میں ایم ایس ایف کی مڈوائفری کی سربراہ تھیریس تویسابینگیرے نے بتایا کہ ’بعض اوقات ہمیں ایسے مریض ملتے ہیں جو اپنی جان بچانے کے لیے یہاں پہنچنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ جانیں بچانا ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔‘
وہ اور کلینک میں تقریباً 100 دیگر دائیاں افغانستان میں زچگی کی شرح اموات کو کم کرنے کی جنگ میں فرنٹ لائن پر اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ افغانستان بچوں کی پیدائش کے دوران اموات کے حوالے سے دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون کی موت ہوتی ہے۔
افغان وزارت صحت نے اس معاملے پر ردعمل جاننے کے لیے متعدد بار کی گئی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2017 سے افغانستان میں ہر ایک لاکھ بچوں کی ڈیلیوی کے دوران 638 خواتین کی اموات ہوئی ہیں جبکہ امریکہ میں یہ تعداد صرف 19 تھی۔

افغانستان میں بہت سے خاندان خواتین کو مرد ڈاکٹروں کے پاس بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

غیر منافع بخش تنظیم نارویجن افغانستان کمیٹی (این اے سی) کے کنٹری ڈائریکٹر ترجے واٹرڈل نے بتایا کہ انہوں نے افغانستان کے دور دراز علاقوں میں فی ایک لاکھ بچوں کی پیدائش پر پانچ ہزار اموات دیکھیں۔
انہوں نے بتایا کہ مرد عورتوں کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور عورتیں ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں پہاڑ پر مر جاتی ہیں۔
افغانستان میں بہت سے خاندان خواتین کو مرد ڈاکٹروں کے پاس بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ افغانستان میں ایم ایس ایف کے ڈائریکٹر فلیپ ریبیرو نے کہا کہ ’ایک عورت کے لیے بچے کی پیدائش سے پہلے اور بعد کی دیکھ بھال تک رسائی (ہمیشہ سے) انتہائی پیچیدہ رہی ہے۔ آج یہ اور بھی پیچیدہ ہے۔‘
کابل میں غیر سرکاری تنظیم ٹیری ڈیس ہومز کے ہیلتھ کوآرڈینیٹر نور خانم احمد زئی نے بتایا کہ ملک کے معاشی بحران کی وجہ سے خاندانوں پر مالی دباؤ نے ان خطرات کو بڑھایا ہے۔
ایک سرکاری ہسپتال میں جہاں دائیاں زیادہ کام کرتی ہیں اور انہیں کم تنخواہ ملتی ہے، خواتین کو اپنی دوا خود لانا پڑتی ہے۔
ایک ڈیلیوری پر تقریباً دو ہزار  افغانی (29 ڈالر) لاگت آتی ہے جو بہت سے خاندانوں کے لیے بہت زیادہ رقم ہے۔
احمد زئی نے کہا کہ خطرات کے باوجود خواتین جو پبلک سیکٹر میں جاتی تھیں اب گھر پر ڈیلیوری کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 40 فیصد افغان خواتین گھر میں ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں تاہم دور دراز کے علاقوں میں 80 فیصد خواتین اکثر اپنی ساس یا مقامی دائی کی مدد اور بعض اوقات اکیلی ہی بچے کو جنم دیتی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2017 سے افغانستان میں ہر ایک لاکھ بچوں کی ڈیلیوی کے دوران 638 خواتین کی اموات ہوئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان چھوڑ کر افغانستان اپنے وطن واپس آنے والی 28 سالہ اسلام بی بی جن کے ہاں تین بچوں کی پیدائش متوقع ہے، تکلیف کی حالت میں خالی ہاتھ خوست میں ایم ایس ایف مرکز میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں بیمار تھی، میرے شوہر کے پاس پیسے نہیں تھے۔ مجھے کہا گیا کہ اس ہسپتال میں جاؤ، وہ سب کچھ مفت کرتے ہیں۔‘
اس تشویشناک صورتحال کے باوجود امید کی کچھ کرن نظر آ رہی ہے۔
صوبائی دارالحکومت گردیز میں این اے سی کی جانب سے حال ہی میں کھولے گئے اپنی نوعیت کے پہلے میٹرنٹی سینٹر کی بدولت پڑوسی صوبے پکتیا میں خواتین کو لاحق خطرات کم ہو سکتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے مقرر کیے گئے صوبائی ہیلتھ ڈائریکٹر خیر محمد منصور نے بتایا کہ ’اس قسم کا کلینک زیادہ تر صوبوں میں موجود نہیں ہے۔ ہم نے ان کے لیے ایک نظام بنایا ہے جس میں شرعی قوانین اور تمام طبی اُصولوں کی پابندی کی جائے گی۔‘
مینیجر نسرین اوریاخیل نے کہا کہ ’این اے سی کا مقصد ہماری بہت سی بہنوں کی مدد کرنا ہے جو الگ تھلگ علاقوں میں رہتی ہیں۔ آنے والے مہینوں میں چار دیگر صوبوں کے لیے اسی طرح کے کلینک کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔‘

شیئر: