Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کے بائیکاٹ کے باوجود بنگلہ دیش کی اپوزیشن چھُپ کیوں رہی ہے؟

حسینہ واجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سیاسی مفاد کے لیے لوگوں کو مروانا چاہتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہوں گے جن کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت کا حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپوزیشن کے رہنما معین خان نے کہا ہے کہ کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے کاغذات نامزدگی کے جمع ہونے تک انہیں چھپنا پڑا۔
معین خان سابق وزیر ہیں اور ان کی جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی (بی این پی) الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی، جبکہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد چوتھی مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔
معین خان نے کہا کہ ’ہم الیکشن بھی نہیں لڑ رہے مگر وہ ہمیں پھر بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘
ان کی جماعت نے الیکشن کا بائیکاٹ اس وقت کیا جب حسینہ واجد نے انتخابات سے پہلے نگراں حکومت بنانے سے انکار کیا۔
بی این پی کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد اس کے 25 ہزار ورکر گرفتار کیے گئے ہیں، اور ایک کروڑ کارکن حکومتی کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے مفرور ہیں۔
معین خان کا کہنا تھا کہ ’پولیس اور حکومتی ادارے ہمارے رہنماؤں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال نے ہمارے اندر خوف پیدا کیا ہے۔‘
حسینہ واجد اور اور ان کی جماعت عوامی لیگ نے متعدد بار بی این پی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ الیکشن کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت الیکشن سے پہلے کریک ڈاؤن کے ذریعے اپوزیشن کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے۔
بی این پی نے گذشتہ الیکشن میں حصہ لیا تھا، لیکن 2014 میں اس نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی عوام اس مرتبہ بھی آزادانہ طور پر اپنے رہنما منتخب نہیں کر سکیں گے۔
نومبر کی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ مظاہروں میں بی این پی کے 10 ہزار کارکن گرفتار ہوئے، مرنے والوں کی تعداد 16 تھی جن میں دو پولیس اہلکار تھے، جبکہ 55 سو افراد زخمی ہوئے۔

سابق وزیراعظم خالدہ ضیا فعال سیاست سے دور ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

معین خان نے کہا کہ ’جیلیں بھر چکی ہیں اور اعداد و شمار بتاتے ہیں جیلوں میں گنجائش سے دوگنا زیادہ قیدی ہیں۔ پولیس نے بی این پی کے رہنماؤں کے گھر رات کو چھاپے مار کر توڑ پھوڑ کی اور عدم موجودگی پر ان کے اہل خانہ کو گرفتار کیا۔‘
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے صرف ان افراد کو گرفتار کیا جو تشدد میں ملوث تھے اور ایک پولیس افسر نے اپوزیشن کے دعوؤں کو غلط کہتے ہوئے ان کی تردید کی۔
کریک ڈاؤن ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حزب اختلاف کی قیادت انتشار کا شکار ہے کیونکہ پارٹی کی بیمار صدر اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا، جو حسینہ کے ساتھ کئی دہائیوں کی دشمنی کی وجہ سے مشہور ہیں، فعال سیاست سے دور نظر بند ہیں۔
اگرچہ ان کے بیٹے نے عارضی طور پر عہدہ سنبھال لیا ہے، لیکن وہ جلاوطنی میں ہیں اور پارٹی کے سب سے سینیئر رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر 29 اکتوبر سے جیل میں ہیں۔
بی این پی کی خواتین ونگ کی سربراہ افروزہ عباس نے کہا کہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران تقریباً 100 خواتین ارکان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ اپنے خاندان سے، اپنے بچوں سے الگ ہو گئی ہیں۔ ان کے خاندان صدمے سے گزر رہے ہیں۔‘
ان کے 74 سالہ شوہر مرزا عباس، جو بی این پی کے اعلیٰ فیصلہ سازوں میں سے ہیں، یکم نومبر سے جیل میں ہیں۔ پولیس نے انہیں ایک رشتہ دار کے گھر سے گرفتار کیا تھا حالانکہ وہ ذیابیطس اور گردے کے مسائل جیسے امراض میں مبتلا ہیں۔

بنگلہ دیش سے گارمنٹس کے سب سے بڑے امپورٹر امریکہ نے تشدد کی مذمت کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

افروزہ عباس نے اپنے دو بیٹوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ڈھاکہ کے اپنے گھر پر رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن یہ آسان نہیں تھا۔
افروزہ نے بتایا کہ 20 نومبر کو عوامی لیگ کے کارکنوں نے گھر پر دو بم پھینکے جس میں اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی کے ذریعے حملہ آوروں کو پہچانا، لیکن پولیس نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔
تاہم حسینہ واجد نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سیاسی مفاد کے لیے لوگوں کو مروانا چاہتی ہے۔
’کوئی بھی جماعت الیکشن کا بائیکاٹ کر سکتی ہے، لیکن وہ لوگوں زندہ کیوں جلاتے ہیں؟ اگر کوئی کوئی الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو لوگ انہیں رد کر دیں گے۔‘
بنگلہ دیش سے گارمنٹس کے سب سے بڑے امپورٹر امریکہ نے تشدد کی مذمت کی ہے اور ویزوں پر پابندی لگائی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم وہ چاہتے ہیں جو بنگلہ دیشی لوگ چاہتے ہیں اور وہ ہیں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن۔‘

شیئر: