Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقوام متحدہ کے یمن کے لیے نمائندے نے پائیدار امن کے لیے ’روڈ میپ‘ پیش کر دیا

اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ سنجیدہ سیاسی مذاکراتی عمل واضح طور پر تنازعات کے خاتمے کی طرف گامزن ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے نے ملک میں امن کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا ہے جس کا انحصار ان کے بقول بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے ٹھوس وعدوں پر ہے۔
اخبار ’الشرق الأوسط‘ میں اتوار کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ کے یمن کے نمائندے ہنس گرونڈبرگ نے کہا کہ یمن میں کسی بھی امن منصوبے کو مرحلہ وار نافذ کرنے کی ضرورت ہو گی اور اس کا انحصار دیرپا جنگ بندی اور ملک سے غیریمنی افواج کے انخلا کو یقینی بنانے پر ہے۔
’غیر یمنی افواج‘ میں یمن میں قانونی حیثیت کی بحالی کے لیے عرب اتحاد کے علاوہ ایران کی قدس فورس شامل ہے جو پاسداران انقلاب کے ساتھ ساتھ لبنان کی حزب اللہ کی بیرونی کارروائیوں کی ذمہ دار ہے۔
ذرائع نے الشرق الأوسط کو بتایا ہے کہ انخلا امن منصوبے کے ’پہلے مرحلے کی تکمیل سے منسلک‘ ہو گا، جس میں ممکنہ طور پر چھ ماہ لگیں گے۔
ہنس گرونڈبرگ نے اخبار کو بتایا کہ پائیدار امن کی راہ میں رکاوٹوں میں سے ایک متحارب فریقوں کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا جسے وہ اگست 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کی ثالثی کا ہدف ایک سنجیدہ سیاسی مذاکراتی عمل ہے جو واضح طور پر تنازعات کے خاتمے کی طرف گامزن ہے اور پائیدار امن، جوابدہ دہ حکومت، اقتصادی ترقی اور مساوات شہریت کی ضمانت اور ایسا مستقبل فراہم کرتا ہے جس کی یمنی عوام خواہش رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تمام فریقوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے ساتھ کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے خواہاں ہیں کہ یہ روڈ میپ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں یمن کے سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کے لیے فریقین کے واضح عزم کو ظاہر کرے۔
انٹرویو کے دوران ہنس گرونڈبرگ نے حوثیوں کے لیے بین الاقوامی سمندری قانون کا احترام کرنے اور بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی پر حملے بند کرنے، ملک کے جنوب میں بدامنی کے لیے پرامن حل کی ضرورت اور نوجوانوں اور خواتین کی جنگ کے بعد یمن میں سیاسی عمل میں شرکت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔

شیئر: