Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان اسمبلی کا پہلا اجلاس، ارکان ایک دوسرے سے ’وزیراعلٰی‘ کا نام پوچھتے رہے

بلوچستان اسمبلی کی چھ خواتین ارکان پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی رکن بنی ہیں (فوٹو: عدنان احمد)
بلوچستان اسمبلی کی خیمہ نما منفرد عمارت میں گذشتہ کئی ماہ سے خاموشی چھائی ہوئی تھی، تاہم بدھ کو بارہویں اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر تقریباً ساڑھے چھ ماہ بعد اس کی رونقیں بحال ہو گئیں۔
اسمبلی کے نومنتخب ارکان کو خوش آمدید کہنے کے لیے کئی دنوں سے تیاریاں چل رہی تھیں۔ اسمبلی کے بیرونی اور نام کی تختی والے حصے کی تزین و آرائش اجلاس سے صرف چند گھنٹے پہلے مکمل کی گئی جبکہ صفائی کے انتظامات بھی صرف ایک گھنٹہ پہلے مکمل کیے گئے۔
بدھ کی صبح ہی اسمبلی کے اندر اور اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ امن وامان کے خدشات اور متوقع احتجاج کے پیش نظر اسمبلی کی طرف جانے والے تمام راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔
اجلاس سے چند گھنٹے پہلے ہی ارکان پہنچنا شروع ہوگئے۔ زیادہ تر نومنتخب ارکان بڑی بڑی اور لگژری گاڑیوں میں اسمبلی پہنچے، تاہم حق دو تحریک کے سربراہ گوادر سے نومنتخب رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان دوست کی گاڑی میں بیٹھ کر آئے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ ان کے پاس پاس ذاتی گاڑی نہیں اس لیے دوست کی گاڑی میں کوئٹہ پہنچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک غریب ماہی گیر کے بیٹے ہیں ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ گاڑی خرید سکیں۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 میں سے 25 ارکان پہلی مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ ان نئے ارکان کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ پابندی کے باوجود اپنے ساتھ بڑی تعداد میں مہمان بھی لے کر اسمبلی پہنچے۔ نئے ارکان تجسس میں نظر آئے تاہم پرانے اور مسلسل منتخب ہونے والے ارکان زیادہ پرجوش دکھائی نہیں دیے۔
صحافیوں کی بڑی تعداد کو ایک ہفتہ پہلے درخواستیں جمع کرانے کے باوجود اسمبلی کے پاسسز نہیں مل سکے جس کی وجہ سے انہیں سکیورٹی اہلکاروں نے اندر آنے سے منع کردیا جس کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
 اس دوران پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے اسمبلی کے قریب پہنچے تو جی پی او چوک پر پولیس نے رکاٹیں کھڑی کرکے روک دیا۔
اجلاس کا وقت سہ پہر تین بجے مقرر کیا گیا تھا، تاہم شروع ہوتے ہوتے چالیس منٹ کی تاخیر ہوئی۔ بارہویں اسمبلی اجلاس کی صدارت پچھلی اسمبلی کے سپیکر جان محمد جمالی نے کرنا تھی لیکن وہ بیماری کے باعث نہیں آ سکے اور ان کی جگہ گورنر بلوچستان نے عوامی نیشنل پارٹی کے نومنتخب رکن انجینیئر زمرک خان اچکزئی کو یہ ذمہ داری سونپی۔
انجینیئر زمرک خان اچکزئی نے کرسی صدارت سنبھال کر اجلاس کی کارروائی شروع کی۔ تلاوت کلام پاک کے بعد ایک نومنتخب رکن نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی انتخابات کے دوران بم دھماکوں اور بدامنی کے واقعات میں مرنے والوں کے لیے فاتحہ خوانی کی درخواست کی جس پر دعا پڑھی گئی۔

انجینیئر زمرک اچکزئی نے نومنتخب ارکان سے حلف لیا (فوٹو: اے ایف پی)

انجینیئر زمرک اچکزئی نے نومنتخب ارکان سے حلف لیا۔ حلف برداری کے بعد اگلی نشستوں پر موجود ایوان کے سب سے سینیئر رکن نواب ثناء اللہ زہری نے انجینیئر زمرک سے پوچھا کہ آپ نے خود حلف اٹھالیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ارکان سے حلف لیتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ خود بھی حلف اٹھا رہے تھے۔
اجلاس میں زیادہ تر خواتین ارکان پچھلی نشستوں پر موجود تھیں۔ ن لیگ کی سابق سپیکر راحیلہ درانی واحد خاتون تھیں جو اگلی نشست پر نواب جنگیز مری کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
حلف کے بعد نومنتخب ارکان نے حلف ناموں پر دستخط کیے اور اسمبلی عملے نے ان سے حلف نامے جمع کرکے سیکریٹری کے پاس جمع کرائے۔ اس کے بعد ارکان نے رجسٹر پر باری باری دستخط کیے۔
پہلا دستخط حلقہ بندیوں کی ترتیب سے پی بی ون سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر نواز کبزئی جبکہ آخری دستخط پی بی 51 سے منتخب کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی نے کیا۔ اس دوران قلعہ سیف اللہ سے اپنی ہی جماعت جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کو شکست دینے والے آزاد امیدوار مولوی نور اللہ کا نام لیا گیا تو مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے ان کے حامیوں نے ان کے حق میں نعرے بازی شروع کردی۔ سیکریٹری اسمبلی کی نشاندہی پر زمرک اچکزئی نے مداخلت کرکے مہمانوں کو نعرے بازی سے منع کیا۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 میں سے 57 ارکان نے حلف اٹھایا۔ پانچ نومنتخب ارکان نے حلف نہیں اٹھایا ان میں بی این پی کے سربراہ سابق وزراعلیٰ سردار اختر مینگل، سابق وزیراعلیٰ ن لیگ کے جام کمال خان عالیانی، بی اے پی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور جے یو آئی کے میر ظفر اللہ زہری شامل ہیں۔
سردار اختر مینگل اور جام کمال قومی نشستوں پر بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دونوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ صوبائی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی جائیں گے۔ صادق سنجرانی نے ابھی تک چیئرمین سینٹ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا جبکہ سرفراز بگٹی اسلام آباد سے اب تک کوئٹہ واپس نہیں آئے۔
بلوچستان اسمبلی کے تین حلقوں کے انتخابی نتائج روکے گئے ہیں جن میں سے پی بی 7 زیارت کم ہرنائی کے گیارہ پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخاب جبکہ پی بی 13 نصیرآباد اور پی بی 22 حب پر دوبارہ گنتی کا حکم دیا گیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان میں سے 25 پہلی مرتبہ منتخب ہوئے ہیں (فوٹو: عدنان احمد)

حلف اٹھانے والوں میں پیپلز پارٹی کے 16، ن لیگ کے 15، جے یو آئی کے 11، بی اے پی کے 4، نیشنل پارٹی کے 4، اے این پی کے تین، بی این پی عوامی، حق دو تحریک، جماعت اسلامی کا ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن مولوی نور اللہ شامل ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان میں سے 25 پہلی مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں 16جنرل نشستوں پر جبکہ 6 خواتین اور تین اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر آئے ہیں۔
پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی کا رکن بننے والوں میں جمعیت علمائے اسلام کے سید ظفرآغا، فضل قادر مندوخیل، ڈاکٹر محمد نواز کبزئی، پیپلزپارٹی کے سردار زادہ فیصل جمالی، صمدخان گورگیج، عبیداللہ گورگیج، لیاقت لہڑی اور بخت محمد،ن لیگ کے زرک خان مندوخیل، برکت علی رند، ولی محمد نورزئی شامل ہیں۔  
نیشنل پارٹی کے خیر جان بلوچ، جماعت اسلامی کے عبدالمجید بادینی، حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان بھی پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ بی اے پی کے صادق سنجرانی اور پرنس آغا عمر احمد زئی بھی پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی پہنچے ہیں، تاہم وہ اس سے پہلے سینیٹ میں صوبے کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کی چھ خواتین ارکان پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی رکن بنی ہیں۔ ان میں پیپلز پارٹی کی مینا مجید، شہناز عمرانی، ن لیگ کی ہادیہ نواز، جے یو آئی کی صفیہ بی بی، اے این پی کی سلمیٰ بی بی، نیشنل پارٹی کی ام کلثوم شامل ہیں۔
اقلیتی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے سنجے کمار، ن لیگ کے پیٹرک ایس ایم اور جے یوآئی کے روی پہوجہ بھی پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی پہنچے ہیں۔ اجلاس میں سب سے بزرگ پیٹرک ایس ایم دکھائی دے رہے تھے۔
حلف برداری کے بعد اجلاس کی صدارت کرنے والے انجینیئر زمرک خان نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمعرات کو دن 12 بجے تک سیکریٹری اسمبلی کے پاس جمع کرائے جاسکیں گے جبکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب جمعرات کو تین بجے ہونے والے اجلاس میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے اب تک وزیراعلیٰ کے امیدوار کی نامزدگی کا بھی اعلان نہیں کیا گیا (فوٹو: عدنان احمد)

بلوچستان اسمبلی کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کے معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ اور ڈپٹی سپیکر کا عہدہ پیپلز پارٹی جبکہ سپیکر کا عہدہ ن لیگ کو ملے گا۔ پیپلز پارٹی نے اجلاس سے کچھ دیر پہلے ڈپٹی سپیکر کے لیے نصیرآباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والی خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی غزالہ گولہ کو نامزد کردیا ہے، تاہم ن لیگ کی جانب سے انتخاب سے چند گھنٹوں پہلے تک سپیکر کے امیدوار کے لیے کوئی نام سامنے نہیں آیا۔
ن لیگ کی جانب سے خاتون رکن اسمبلی راحیلہ حمید درانی اور آزاد منتخب ہوکر ن لیگ میں شامل ہونے والے کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کے نام سپیکر کے عہدے کے لیے گردش کررہے ہیں، تاہم اب تک باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کی جانب سے اب تک وزیراعلیٰ کے امیدوار کی نامزدگی کا بھی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ انتخابات کے 20 روز بعد اجلاس طلب کیے جانے پر توقع کی جارہی تھی کہ صوبے کے متوقع وزیراعلیٰ کا نام سامنے آجائے گا اور کنفوژن ختم ہوجائے گی۔
تاہم اجلاس سے قبل جس طرح نومنتخب ارکان ایک دوسرے سے وزیراعلیٰ کے امیدوار کے ناموں سے متعلق پوچھ رہے تھے اسی طرح اجلاس ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے اور میڈیا کے نمائندوں سے پوچھتے رہے۔
گذشتہ تین دہائیوں سے بلوچستان اسمبلی کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی عرفان سعید نے اس موقع پر تبصرہ کیا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس کے اختتام تک ارکان کی اکثریت کو یہ پتہ نہیں کہ صوبے کا اگلا وزیراعلیٰ کون بننے والا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ارکان اسمبلی ایک دوسرے یا پھر میڈیا کے نمائندوں سے پوچھتے رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ارکان کی اکثریت کو اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا۔ یہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی اور نچلی قیادت کے درمیان بداعتمادی کو ظاہر کرتی ہے۔

شیئر: