Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرب ویمن آف دی ایئر ایوارڈز، خواتین کی شاندار کامیابیوں کی ستائش

تقریب میں مختلف شعبوں کی خواتین نے شرکت کی۔ (فوٹو: عرب نیوز)
مختلف پیشہ ورانہ پس منظر کی حامل عرب خواتین کی عالمی سطح پر حاصل کی گئی کامیابیوں کو سراہنے کے لیے لندن میں سالانہ ایوارڈز کی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سعودی عرب کی جانب سے خواتین کو بااختیار بنانے کی بھی تعریف کی گئی۔
عرب نیوز کے مطابق برطانیہ میں قائم لندن عریبیہ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام 10ویں عرب ویمن آف دی ایئر ایوارڈز میں اس سال آٹھ خواتین کو ان کی کاروباری قیادت، تحقیق اور ترقی، تخلیقی صلاحیتوں، ثقافتی شعبے میں تخلیقی کام، سماجی ترقی، ثقافتی تبادلے، سائبر سکیورٹی تعلیم اور انسانی امداد کے شعبے میں ان کی کامیابیوں کو منایا گیا۔
لندن عریبیہ آرگنائزیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عمر بدور نے کہا کہ ’ہم کوئی زمرہ متعین نہیں کرتے  کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر خاتون نامزدگی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر جائے اور محسوس کرے کہ اسے الگ تھلگ نہیں کیا گیا، اس لیے یہ تمام شعبوں کے لیے کُھلا ہے اور کوئی بھی کسی کو بھی نامزد کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بدھ کو کارلٹن ٹاور جمیراہ میں منعقدہ تقریب کے دوران عرب نیوز کو بتایا کہ رواں برس تخلیقی صلاحیتوں کے لیے نئے زمرے شامل کیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ سائبر سکیورٹی کو بھی شامل کیا گیا۔
ان ایوارڈز کے ذریعے منتظمین کا مقصد دنیا بھر میں عرب خواتین کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے برطانیہ اور عرب تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
سعودی فیشن ویک اور سعودی بوتیک کنسلٹنسی گلوبل کلچر ہاؤس کی بانی شہزادی نورا بنت فیصل السعود نے شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ’کے وژن اور خواتین کو موقع دینے کے لیے‘ ان کا شکریہ ادا کیا۔
شہزادی نے اپنا ایوارڈ شعبہ ثقافت میں تخلیقی کام متعارف کرانے والی تمام خواتین کے نام کیا۔
شہزادی نورا بنت فیصل السعود نے 2019 میں وزارت ثقافت میں شمولیت اختیار کی جہاں انہوں نے مملکت کے فیشن کے شعبے کے لیے سٹریٹیجی ڈویپلمنٹ کی سربراہی کی اور مقامی ٹیلنٹ کی مدد اور نشوونما میں مدد کی۔
سماجی ترقی کے شعبے میں  ایوارڈ اماراتی خولود حسن النوویس کو دیا گیا، جو ایک کاروباری خاتون اور سٹریٹیجسٹ ہیں۔

کامیاب خواتین کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’پرائیویٹ سیکٹر سے خدمت خلق تک میرا سفر ایک ایسا فیصلہ تھا جو دوسروں کی زندگیوں میں بامعنی تبدیلی لانے کی خواہش پر مبنی تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’متحدہ عرب امارات میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ہماری قیادت کے عزم نے مجھے آگے بڑھنے، دینے اور خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔‘
آرگنائزیشن کے مشاورتی بورڈ کی رکن بارعہ علم الدین نے کہا کہ ایوارڈز جو کامیاب خواتین کی کامیابی کو مناتے ہیں، انہیں بہت زیادہ اعتماد دیتی ہیں، اور آگے بڑھنے کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں عرب دنیا میں ہمیں اس کی ضرورت ہے کیونکہ عرب دنیا میں ایک طویل عرصے سے خواتین کی پرورش ایسی کی گئی ہے کہ ایک بھائی اور ایک مرد زیادہ کام کر سکتے ہیں اور وہ زیادہ اہم ہیں۔‘
صحافی اور لکھاری بارعہ علم الدین نے کمپیوٹر پروگرامنگ، صحافت، فوج، پارلیمنٹ اور دیگر کئی شعبوں میں خواتین کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے مختلف شعبوں میں سعودی خواتین کی شمولیت کی بھی تعریف کی، جس کی شرح اس وقت 34 فیصد ہے، جو پہلے ہی لیبر مارکیٹ میں وژن 2030 کے ہدف 30 فیصد کو عبور کر چکی ہے۔

ایوارڈز تمام شعبوں میں دیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

بارعہ علم الدین کا کہنا تھا کہ ’مجھے سعودی خواتین کے بارے میں جو چیز پسند ہے وہ ان کا جذبہ ہے۔ وہ واقعی کامیاب ہونا چاہتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ملک پر فخر کرتی ہیں بلکہ اپنے ملک اور عرب دنیا کی ترقی میں بھی حصہ لینا ڈالنا چاہتی ہیں۔‘
الدرعیہ گیٹ ڈویلپمنٹ اتھرٹی کے چیف مارکیٹنگ افسر کرن حسلام جو اس تقریب کے اہم سپانسر ہیں، نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی اہم تقریب تھی۔
انہوں نے کہا کہ دو روزہ تقریب کے دوران ملک کی قیادت میں مملکت کے مواقع اور وژن کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔
’ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ معاشرے میں ایک غیر معمولی ترقی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ الدریعہ میں 85 فیصد افرادی قوت سعودی ہے، 36 فیصد خواتین ہیں اور ہمارے پاس موجود ملازمین کی 16 فیصد خواتین اعلٰی عہدوں پر ہیں جو کہ وژن اور عزم کا حقیقی ثبوت ہے۔‘

شیئر: