Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر: ایک ہفتہ بعد بھی گھروں سے پانی نہیں نکالا جاسکا، بیماریاں پھیلنے لگیں

محکمہ موسمیات نے منگل سے بلوچستان میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کے ضلع گوادر میں طوفانی بارشوں کے بعد زیر آب آنے والے نشیبی علاقوں سے ایک ہفتے بعد بھی پانی نہیں نکالا جاسکا اور شہر میں وبائی امراض پھیلنے لگے ہیں۔ پائپ لائنوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی اور شہریوں نے پانی کی عدم فراہمی کے خلاف سڑک بند کرکے احتجاج کیا۔
محکمہ موسمیات نے منگل سے بلوچستان میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جس سے بعض نشیبی علاقوں اور ندی نالوں میں طغیانی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
پرونشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ ہفتے صوبے کے پچیس سے زائد اضلاع میں بارشیں ہوئیں۔ کوئٹہ، قلعہ عبداللہ، پشین، چمن، قلعہ سیف اللہ، زیارت، قلات اور مستونگ کے بالائی علاقوں میں برفباری بھی ہوئی۔
بارشوں سے تین بچوں سمیت پانچ افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوا جن میں سے تین اموات خاران میں جبکہ دو اموات بارکھان میں ہوئیں ۔پانچ اضلاع گوادر، کیچ، خاران، کوئٹہ اور بارکھان میں 332 گھروں اور چار دیواریوں کو نقصان پہنچا جن میں سے 97 گھر مکمل تباہ ہوئے۔ 28 کشتیاں، چار سڑکیں اور ایک پل کو بھی نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصانات گوادر میں ہوئے جہاں 85 سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ جبکہ 175 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ 900 کے قریب لوگوں کو ریسکیو کرکے محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا۔
تاہم مقامی صحافی صداقت بلوچ کا کہنا ہے کہ نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی نے بھی اتوار کو گوادر کا دورہ کیا متاثرہ مکانات کی تعداد 700 بتائی تھی۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق گوادر میں 27 فروری سے یکم مارچ تک تین دنوں میں 245 ملی میٹر بارش ہوئی جس کے نتیجے میں ضلع کے سمندر کنارے واقع زیادہ تر نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔ نکاسی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے گوادر کی پرانی آبادی میں کئی فٹ پانی جمع ہوگیا۔
حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں سے ڈی واٹر پمپس اور سڑکوں پر کٹ لگا کر پانی سمندر کی جانب دھکیلا جارہا ہے اور شہر میں تیس سے زائد چھوٹے ڈی واٹرنگ پمپس اور سندھ سے منگوائے گئے پانچ بڑے ڈی واٹرنگ پمپس کام کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے مقامی لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ پیر تک متاثرہ علاقوں سے پانی نکال لیا جائے گا، تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں اب بھی پانی جمع ہے اور اسے نکالنے میں دو سے تین دن مزید لگ سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گوادر میں بارش سے ہونے والے نقصانات کے تعین کے لیے کمیٹی بناکر بیس دنوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔
گوادر کے بلدیاتی کونسلر اور نیشنل پارٹی کے سابق ضلعی صدر فیض ناگوری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹی ٹی سی کالونی، تھانہ وارڈ، بخشی کالونی اور سول ہسپتال سے ملحقہ آبادی سے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود پانی نہیں نکالا جاسکا ہے درجنوں گھر وں میں اب بھی پانی جمع ہے۔

فیض ناگوری کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلوں کی وجہ سے پینے کے پانی کی پائپ لائنیں ٹو ٹ گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے نکاسی آب کی کوششیں تو جاری ہیں مگر یہ کام سست روی کا شکار ہے۔ امدادی سرگرمیوں کوتیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسلسل پانی جمع ہونے کی وجہ سے ریتیلی زمین پر قائم گھروں کی بنیادیں بیٹھ رہی ہیں۔ بہت سے مکانات اب رہنے کے قابل نہیں۔
صداقت بلوچ کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ملا بند وارڈ سے دور گٹھی تک گوادر شہر کے 49 وارڈ میں سے 28 مکمل متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح میونسپل کارپوریشن جیونی اوردیہی علاقوں پر مشتمل 13 یونین کونسل میں 5 یونین کونسل دور گھٹی، سربندن، گبد کلاتو اورپشکان ون اور ٹو متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے بقول چب کلمتی، پلیری میں بھی جزوی نقصانات ہوئے ہیں۔
صداقت بلوچ کے مطابق شہر کے مرکزی علاقوں ملا فاضل چوک، شاہین چوک سے پانی نکالا جاچکا ہے، گلیوں میں پانی کم ہوگیا ہے، تاہم اب بھی گھروں میں پانی موجود ہے جس سے لوگ پریشان ہیں۔ جن گھروں سے پانی نکالا جاچکا ہے وہ بھی ابھی تک رہنے کے قابل نہیں اس میں نمی اور بدبو پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں کا سامان خراب ہوچکا ہے۔
پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ڈی جی جہانزیب خان نے اعتراف کیا ہے کہ پانی نکالنے کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ 85 فیصد علاقوں سے پانی کی نکاسی کرلی گئی ہے باقی کام بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ، پاک فوج، پاک بحریہ،جی ڈی اےاور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ نے بھی امدادی سرگرمیوں میں ہماری مدد کی ہے۔  
کئی علاقوں میں کئی دنوں سے بجلی بھی بند ہے۔ ڈپٹی کمشنر گوادر اورنگزیب بادینی کے مطابق صرف تین سے چار کلو میٹر کا علاقہ ہے جہاں پانی موجود ہے، کرنٹ لگنے کے پیش نظر ان علاقوں میں بجلی معطل کر دی ہے۔
فیض ناگوری کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلوں کی وجہ سے پینے کے پانی کی پائپ لائنیں ٹو ٹ گئی ہیں جس کی وجہ سے شہر میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ظہور شاہ ہاشمی اور دیگر علاقوں کے مکینوں نے سڑک بند کرکے احتجاج بھی کیا۔

مقبول احمد کے مطابق کافی دیہات سیلابی ریلوں سےبری طرح متاثر ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

گوادر میں مسلسل ایک ہفتہ سے بارشوں کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے وبائی امراض میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی تصدیق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سول ہسپتال گوادر ڈاکٹر حفیظ الرحمان نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نمونیا اور ہیضہ کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے تاہم صورتحال کنٹرول میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن میں دو تین کیسز آتے تھے لیکن گزشتہ کئی دنوں سے دس سے پندرہ کیسز آرہے ہیں۔ لوگ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت نے بلدیاتی نمائندوں اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو پانی صاف کرنے والی 90 ہزار سے زائد گولیاں دے دی ہیں۔ لوگ پینے کے پانی کو صاف کرنے کے لیے یہ گولیاں استعمال کریں تاکہ بیماریوں سے بچ سکیں۔
دوسری جانب گوادر سے تقریباً 80 کلومیٹر دور ایران سے متصل سب تحصیل ستنسر کے چوڑ، پمپ بازار، سماتی، سیسصدی ڈوب سمیت کئی دیہاتوں میں اب تک امداد ی ٹیمیں نہ پہنچنے کی شکایات ملی ہیں۔
پمپ بازار کے رہائشی مقبول احمد نے گوادر پہنچ کر صحافیوں کو علاقے کی صورتحال بتائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں موبائل فون نیٹ ورک کام نہیں کرتا اس لیے وہاں کی صورتحال سے انتظامیہ اور باقی دنیا بے خبر ہیں۔
مقبول احمد کے مطابق یہ سارے دیہات سیلابی ریلوں سےبری طرح متاثر ہوئے ہیں، گھر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مال مویشی بڑی تعداد میں مر گئے ہیں، مگر اب تک کوئی حکومتی اہلکار پوچھنے اور نہ ہی کوئی امدادی ٹیم آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا ایک رشتہ دار نصیر ولد رسول بخش سیلابی ریلے میں بہہ جانے کے بعد سے لاپتہ ہے۔ اب تک زندہ اور نہ ہی مردہ تلاش کیا جاسکا ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصانات گوادر میں ہوئے جہاں 85 سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے (فوٹو: موسیٰ بلوچ)

دوسری جانب زیارت، سنجاوی، قلعہ سیف اللہ، کان مہترزئی، مسلم باغ اور نسئی، پشین، برشور، توبہ کاکڑی، توبہ اچکزئی اور دیگر سرد اور بالائی علاقوں میں برفباری کی وجہ سے کئی دیہی علاقوں کی رابطہ سڑکیں بند ہوگئی ہیں۔
کوئٹہ کو ژوب سے ملانے والی شاہراہ کو بھی دو دنوں تک برفباری اور پھر شدید سردی سے سڑکوں پر برف جمنے کی وجہ سے انتظامیہ نے رات کے اوقات میں بند رکھی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق پیر کو سورج نکلنے اور سردی کم ہونے کے بعد صورتحال سنبھل گئی ہے اور شاہراہ ٹریفک کے لیے چوبیس گھنٹے کھلی ہے۔
حکام کے مطابق شیرانی کے علاقے دہانہ سر کے مقام پرلینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہونے والی ژوب ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ بھی اب ٹریفک کے لیے کھل گئی ہے۔
سبی میں انتظامیہ نے 6 مارچ سے شروع ہونےوالے تاریخی سبی میلے کو منسوخ کردیا۔ اس کی وجہ صوبے میں بارشوں کے بعد ہونےوالی صورتحال بتائی جاتی ہے۔ یہ میلہ پہلی دفعہ 1883 میں گلہ بانی کے فروغ کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ سبی میلہ ہر سال موسم بہار کے آغاز پر لگایا جاسکتا ہے۔
محکمہ موسمیات بلوچستان نے منگل کو بارشوں کی پیشنگوئی کی ہے۔ محکمہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق منگل کو بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں موسم سرد اور خشک جبکہ شمالی اضلاع  شدید سرد رہیں گے۔
تاہم کوئٹہ، چمن، پشین، قلعہ سیف اللہ، زیارت، تربت، نوکنڈی، ژوب، قلات، خضدار، چاغی، پنجگور، واشک، دالبندین، خاران اورگوادر میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ مارچ میں بلوچستان میں معمول کے مطابق بارشیں ہوں گی۔ 

شیئر: