Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر: 10 گھنٹے کی بارش کے بعد اربن فلڈنگ، ’پانی نکالنے کا کوئی طریقہ اور راستہ نہیں‘

گوادر کے علاقے ملا بند کے رہائشی مولا بخش نے بتایا کہ گھر میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہے۔
بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں منگل کو مسلسل 10 گھنٹوں تک جاری رہنے والی طوفانی بارش کے بعد اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی  ہے۔
شہر کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب گئے ہیں اور گھروں بازاروں اور دکانوں میں پانی داخل ہوگیا ہے۔
متعدد مکانات اور دیواریں منہدم ہوگئیں۔ نشیبی علاقوں سے سینکڑوں لوگ اپنے گھر بارچھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہر میں ایمرجنسی نافذ کرکے  شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے ڈی واٹر پمپ اور ٹینکرز کے ذریعے پانی کی نکاسی کی جا رہی ہے۔
 محکمہ موسمیات کوئٹہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مختار مگسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ گوادر میں منگل کو چند گھنٹوں کے دوران 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی جس کی وجہ سے اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوئی۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق  گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں  منگل کی صبح چار بجے شروع ہونے والی بارش دوپہر بارہ سے ایک بجے تک  بغیر کسی وقفے کے جاری رہی جس کے باعث سیلابی صورتحال ہے۔
گوادر کے مقامی صحافی صداقت بلوچ کے مطابق گوادر شہر کے علاوہ جیونی، سربندن، کلانچ، پشکان ، پلیری، ستنسر اور ضلع کے باقی  علاقے بھی بارش سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہر میں مواصلات کا نظام درہم برہم ہے، بجلی کے کھمبے گرنے اور فیڈر ٹرپ ہونے سے بجلی کی فراہمی منگل کی صبح سے معطل ہے۔ کئی علاقوں میں موبائل فون نیٹ ورک نے بھی کام چھوڑ دیا ہے۔
گوادر میں طوفانی بارش کے باعث طلبہ کی بڑی تعداد فزکس اور جنرل سائنس کا امتحان بھی نہیں دے سکے۔ ضلعی انتظامیہ اور ضلعی تعلیمی افسر کی درخواست پر بلوچستان بورڈ نے متاثرہ طلبہ سے بعد میں امتحان لینے کا اعلان کیا ہے۔
گوادر کے علاقے ملا بند کے رہائشی مولا بخش نے بتایا کہ گھر میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہے۔

کمشنر مکران ڈویژن نے تصدیق کی کہ کچھ علاقوں میں تین سے چار فٹ تک بھی پانی جمع ہے۔

’سارا سامان اور کمرے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، بیٹھنے تک کی جگہ نہیں۔ گلی کوچے اور سڑکیں بھی ڈوب چکی ہیں۔ گھر سے پانی نکالنے کا کوئی طریقہ اور راستہ نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اگر مزید بارشیں ہوئیں اور گھروں سے پانی نہ نکالا گیا تو ہمارے گھر تباہ ہوجائیں گے۔
ایس ایچ او گوادر محسن علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ پرانی آبادی میں دو سے تین فٹ تک پانی جمع ہے، رہائشی مکانات زیادہ متاثر ہیں اور پانی جمع ہونے کی وجہ سے ان کے منہدم ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ  ضلعی انتظامیہ اور پولیس مل کر شہریوں کوشہر کے بالائی علاقوں میں  سرکاری سکولوں، عمارتوں اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔
سیلابی ریلوں کی وجہ سےگوادر فش ہاربر اور سربندن میں سمندر کنارے کھڑی کی گئیں ماہی گیروں کی متعدد کشتیاں ڈوب یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔
گوادر کے رہائشی ناصر سہرابی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ساحلی ضلع میں گذشتہ 14 سالوں میں ایسی بارش نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے اتنی تیز بارش 2010 میں ہوئی تھی جب سمندری طوفان ’پیٹ‘ آیا تھا  اور تین دنوں میں 377 ملی میٹر بارش ہوئی۔
اس وقت گوادر شہر کا بڑا حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا اور شہر میں کئی فٹ تک پانی جمع ہوگیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ منگل کو ہونے والی بارش سے سب سے زیادہ گوادر پورٹ سے ملحقہ شہر کی پرانی آبادی بالخصوص پرانا ملا بند، سورگ دل، شادو بند اور فاضل چوک متاثر ہوئے ہیں۔ یہ علاقے ڈیم کا منظر پیش کررہے ہیں۔

محکمہ آبپاشی کے مطابق موسلا دھار بارش کے نتیجے میں گوادر کا آنکاڑہ ڈیم بھر گیا ہے۔

ناصر سہرابی کے مطابق پہلے پہاڑوں سے آنےوالے پانی کے ریلے یہاں سے بہہ کر مشرقی کی جانب سمندر میں چلے جاتے تھے اب مشرق میں فش ہاربر کی دیوار، شمال میں فش ہاربر کی اونچی سڑک بنا دی گئی ہے جبکہ جنوب اور مغرب میں پہاڑ ہے اور پانی سمندر تک جانے کے سارے راستے بند ہوگئے۔
ان کا کہنا ہے کہ پانی کی پرانی گزرگاہ بند ہونے کی وجہ سے سیلابی ریلوں نے آبادی کا رخ کرلیا ہے جس سے ان علاقوں میں دو سے تین فٹ تک پانی جمع ہوگیا ہے۔
گوادر پورٹ کے سیلابی نالوں کا رخ بھی سمندر کی بجائے پرانی آبادی کی طرف موڑا گیا ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرانی آبادی میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے نکاسی آب کے لیے بچھائی گئی لائنیں ناکارہ ثابت ہوئی ہیں اس کی گنجائش بہت کم ہیں جو معمولی بارش کا دباؤ بھی برداشت نہیں کرسکتیں۔
 حق دو تحریک کے سربراہ اور گوادر کے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان  کا کہنا ہے کہ صورتحال کافی خراب ہیں۔
’پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے، پانی نکالنے کا کوئی بندوبست نہیں، انتظامیہ بارش کا پانی ٹینکر کے ذریعے نکال کر سمندر میں پھینک رہی ہیں۔ یہ کام بہت سست روی کا شکار ہیں اس طرح تو پانی نکالنے میں کئی دن اور لگ جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہونے کی وجہ نیا انفراسٹرکچر ہے جو شہر میں تعمیر کیا جارہا ہے اس میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان کے بقول نکاسی آب کی ساری منصوبہ بندی بارش میں بہہ گئی ہے۔ ’اربوں روپے کے فنڈز خرچ کیے گئے مگر اس سے عوام کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچا ہے اور ان کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوگیا ہے۔‘
مکران کوسٹل ہائی وے کے دونوں جانب پانی جمع ہے۔ کئی مقامات پر شاہراہ پانی میں ڈوب چکی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے تاہم ڈپٹی کمشنر گوادر میجر ریٹائرڈ اورنگزیب بادینی کا کہنا ہے کہ گوادر کا مکران کوسٹل ہائی وے کے ذریعے کراچی اور کیچ سے رابطہ بحال ہے۔
  کمشنر مکران ڈویژن  احمد عمرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انتظامیہ کی پہلے سی تیاری تھی تاہم چند گھنٹوں میں 100 ملی میٹر بارش ہوجائے تو اس سے سیلاب آجاتا ہے گوادر میں بھی یہی صورتحال ہے۔

نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان  کا کہنا ہے کہ صورتحال کافی خراب ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شہر کا نواحی علاقے سربندن مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور انتظامیہ کو رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔وہاں پہاڑوں سے آنےوالے سیلابی ریلے گزر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلسل بارش کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’تاہم بارش رکتے ہی انتظامیہ نے واٹر باؤزر اور ڈی واٹرنگ پمپ کے ذریعے پانی کی نکاسی شروع کردی ہے۔‘
سعید عمرانی کے مطابق 15 سے 20 ڈی واٹرنگ  پمپ اور 20 سے 25 واٹر باؤزر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی نکاسی میں آنے والی سڑکوں پر کٹ لگایا جارہا ہے ۔
کمشنر مکران ڈویژن نے تصدیق کی کہ کچھ علاقوں میں تین سے چار فٹ تک بھی پانی جمع ہے، متعدد کچے مکانات اور چار دیواریں منہدم ہوئی ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ گوادر میں ایمرجنسی نافذ کرکے تمام محکموں کو امدادی کارروائیوں میں شریک ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سینیٹر کہدہ بابرنے گوادر کو آفت زدہ شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں صورتحال ضلعی انتظامیہ کے بس سے باہر ہوگئی ہے۔
’وفاقی اور صوبائی حکومت گوادر کی صورتحال کا نوٹس لے کر امدادی سرگرمیوں میں تعاون کرے۔‘
محکمہ آبپاشی کے مطابق موسلا دھار بارش کے نتیجے میں گوادر کا آنکاڑہ ڈیم بھر گیا ہے اور اس کے سپیل وے کھول دیے گئے ہیں۔

سینیٹر سینیٹر کہدہ بابرنے گوادر کو آفت زدہ شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

 گوادر سے ملحقہ  کیچ میں بھی موسلا دھار بارش ہوئی ہے۔ تمپ اور مند میں 51 ملی میٹر، دشت میں 46 ملی میٹر  بارش ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نہنگ ندی میں طغیانی  پیدا ہوگئی ہے اور دو لاکھ  کیوسک کا ریلہ گزر رہا ہے۔
پی ڈی ایم اے مکران زون کے مطابق بارشوں کی وجہ سے 244 فٹ کی گنجائش رکھنے والامیرانی ڈیم بھر گیا ہے اور اس کے سپیل وے کھول دیئے گئے ہیں۔ اس کے سپیل وے سے 4.9 فٹ  یا 20 ہزار کیوسک پانی  خارج ہورہا ہے ۔محکمہ موسمیات کوئٹہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مختار مگسی نے خبردار کیا ہے 29 فروری کو مغربی ہواؤں کا ایک نیا سلسلہ  بلوچستان میں داخل ہوگا جو موجودہ سپیل سے زیادہ طاقتور ہوگا۔
’اس کے نتیجے میں گوادر، کیچ اور لسبیلہ سمیت صوبے کے جنوب اور جنوب مشرقی علاقے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘
پی ڈی ایم اے نے بلوچستان کے تمام اضلاع میں 29 فروری سے 2 مارچ تک بارشوں کا الرٹ جاری کرتے ہوئے شہریوں کواس دوران غیر ضروری سفر کرنے، آبی گزرگاہوں اور پہاڑی دروں، گہرے پانی اور ڈیموں کے قریب جانے اورخستہ و کمزور مکانات میں رہائش سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

شیئر: