Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں پر عائد ٹیکس میں اضافہ، قیمتیں بڑھنے کا امکان

معاشی مشکلات نے مختلف شعبوں کو متاثر کیا ہے اور گاڑیوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی جس کے سبب گاڑیاں مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے مشن کی کامیابی کے لیے ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا گیا ہے۔

کون سی گاڑیوں پر عائد ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے؟

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ملک میں تیار 1400 سی سی یا اس سے زائد انجن والی گاڑیوں پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا جبکہ اضافی سیلز ٹیکس 40 لاکھ یا زائد قیمت والی گاڑیوں پر بھی عائد ہو گا۔
ایف بی آر  کے مطابق مقامی طور پر تیار ڈبل کیبن، فور ویل پک اپ پر بھی اضافی سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔ شہریوں کو اب مزکورہ گاڑیاں خریدنے پر بھاری ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

سیلز ٹیکس میں اضافے سے 4 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہونے کا امکان

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق سیلز ٹیکس میں اضافے سے 4 ارب روپے کی اضافی آمدنی یا ٹیکس حاصل ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 14 فروری کو سیلز ٹیکس اضافے کی منظوری دی تھی۔
ایف بی آر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ٹیکس کی شرح میں اضافے کا اطلاق فوری ہو گا یعنی آج سے 1400 سی سی یا اس سے اوپر کی گاڑیاں خریدنے پر 25 فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔
آٹو موبائل انڈسٹری سے وابستہ سینیئر عہدیدار میاں شعیب سمجھتے ہیں کہ سیلز ٹیکس میں اضافے سے گاڑیوں کی فروخت میں کمی ہو گی۔ یہ اقدام  ٹیکس میں اضافے کی بجائے اُس میں کمی کا سبب بنے گا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ اندازہ اب غلط ثابت ہو رہا ہے کہ ٹیکس بڑھانے سے اُن کا ریونیو ٹارگٹ حاصل ہو گا اس کے برعکس جب حکومت کسی بھی شعبے پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو نتیجتاً صارفین اُس شعبے میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔
ایف بی آر کا سیلز ٹیکس میں اضافے کا اقدام آٹو موبائل انڈسٹری کی مزید گراوٹ کا سبب بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ مقامی کار اسمبلرز بھی آٹو موبائل انڈسٹری کی گراوٹ کے ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے مقامی سطح پر گاڑیوں کے پلانٹ لگانے کے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔

آٹو موبائل انڈسٹری گرواٹ کا شکار

پاکستان کی معاشی مشکلات نے مختلف شعبوں کو متاثر کیا ہے اور اسی طرح گاڑیوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ ماہرین حکومتی پالیسیوں اور بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری کو آٹوموبائل صنعت میں آنے والی اس کمی کی وجہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں چین سمیت کئی ملکوں کی کمپنیاں گاڑیاں تیار کرتی ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

گاڑیوں کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے اور سپیئر پارٹس کی درآمد پر قدغن کے باعث اس صنعت کو بھاری نقصان ہوا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق مالی سال 2020-2021 کے دوران ملک میں گاڑیوں کی مجموعی پیدوار 28 لاکھ 59 ہزار 552 تھی جن میں کاروں کی تعداد ایک لاکھ 53 ہزار 462، جیپوں اور ایس یو ویز کی تعداد 28 ہزار 927 تھی۔

اس سے قبل نئی گاڑی کی خریداری سے رجسٹریشن تک کتنا ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا؟

اردو نیوز کو موصول دستاویزات کے مطابق 1300 سی سی یا اس سے اوپر کی گاڑی کی خریداری پر 1 لاکھ 15 ہزار روپے تک مجموعی ٹیکس اور رجسٹریشن فیس دینا پڑتی ہے جو کہ 3 سال پہلے تک 30 سے 40 ہزار روپے تھی۔

شیئر: