Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

12 سال پہلے دائر کیس کی سپریم کورٹ میں پہلی سماعت، لیکن فریقین تو کب کے چل بسے

12 سال بعد جب کیس سماعت کے لیے مقرر ہوا تو پتہ چلا فریقین دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’جب سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس ملا کہ وہ کیس جو ہمارے والد نے 12 سال پہلے سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا وہ سماعت کے لیے مقرر ہوا ہے تو ہمیں یقین نہ آیا۔ اپنے وکیل سے رابطہ کیا جنھوں نے تصدیق کی اور سماعت کے لیے ساتھ چلنے کو کہا۔ کیس کی سماعت کے لیے کئی گھنٹے کا سفر طے کرکے ایک دن پہلے ہی اسلام آباد پہنچے اور کیس چند منٹوں میں ملتوی ہوگیا۔‘
یہ کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں جائیداد کے مقدمے میں پیش ہونے والے کیلاش ویلی سے تعلق رکھنے والے سبحان الدین کا، جن کے والد نے اپنے بھائی کی جانب سے بنا پوچھے زمین کسی تیسرے فریق کو فروخت کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
12 سال بعد جب کیس سماعت کے لیے مقرر ہوا تو درخواست گزار اور مدعاعلیہ دونوں ہی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ وادی کیلاش سے تعلق رکھنے والے کاشکاری کیلاش کے بھائی شیخ مالک، جنھوں نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا، نے اپنی آبائی زمین اپنے ایک دور کے رشتہ دار حمدان کیلاش کو بیچ دی۔
جس کے خلاف کاشکاری کیلاش نے مقامی عدالت میں کیس دائر کیا لیکن مقامی عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔ جس کے بعد وہ ہائی کورٹ گئے لیکن وہاں بھی فیصلہ ان کے خلاف ہی آیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2012 میں انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
2012  سے 2024 کے دوران یہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہو سکا۔ اس دوران کچھ عرصہ قبل درخواست گزار کاشکاری کیلاش اور مدعا علیہ حمدان کیلاش دونوں ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اب جب 20 مارچ بروز بدھ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم بینچ نے کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ کیس کے دونوں فریق اب اس دنیا میں نہیں ہیں تاہم درخواست گزار کا بیٹا کمرہ عدالت میں موجود ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کے بیٹے سے پوچھا کہ ’کیا وہ اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں اور اس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں؟‘ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’بالکل میں یہ مقدمہ چلانا چاہتا ہوں کیونکہ میرے والد سمجھتے تھے کہ مقامی عدلیہ نے ان کی بات کو درست طریقے سے نہیں سنا تھا اور ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔ اب والد اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن میں ان کے لیے انصاف چاہتا ہوں۔‘
عدالت نے دوسرے فریق کے بارے میں بھی دریافت کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی بھی پیش نہیں ہوا تھا۔ عدالت نے حمدان کیلاش کے قانونی ورثا کو نوٹس کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔

سبحان اللہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات بھی موجود ہیں جو ساٹھ ساٹھ سال سے زیر التوا ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کیس کے حوالے سے وفات پا جانے والے مدعی کاشکاری کیلاش کے بیٹے سبحان الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہماری اپنے گاوں میں آبائی زمین ہے۔ ہمارے چچا نے 2008 میں اس میں کچھ زمین باقی بھائیوں سے مشاورت کیے بغیر ہمارے ایک دور کے رشتہ دار کو بیچ دی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مقامی طور پر خاندان کی زمین کسی دوسرے فرد کو بیچا جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے اگر خاندان میں سے کسی نے زمین بیچنا ہو تو اپنے قریبی رشتہ داروں بالخصوص بھائیوں سے لازمی پوچھتا ہے اور اگر ان میں خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو وہ باہر بیچی جاتی ہے لیکن ہمارے چچا نے ہمارے والد سے نہیں پوچھا جس کا انھیں رنج تھا۔ اسی وجہ سے اس کے خلاف عدالت گئے۔ عموماً اس طرح کے مقدمات میں عدالت بھائیوں کا حق دعویٰ قبول کرتے ہوئے انھیں زمین بیچنے کا حکم دے دیتی ہیں لیکن اس معاملے میں فیصلہ ہمارے خلاف آیا۔‘
سبحان الدین نے کہا کہ ’جس کے خلاف والد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن اس دوران وہ 80 سال سے زائد عمر کے ہو چکے تھے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ جس کے خلاف درخواست دائر کی تھی وہ بھی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میری عمر اب 40 سال سے زائد ہے اور مجھے پتہ ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں فییصلے اتنی جلدی نہیں آتے لیکن چونکہ میں اس کیس میں والد کے ساتھ شروع سے چل رہا تھا اور مجھے اس کی تفصیلات بھی معلوم ہیں اس لیے میں انتظار میں تھا کہ کب سپریم کورٹ اس کو سماعت کے لیے مقرر کرے گی۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بے شک میں بھی 80 کا ہو جاؤں اس کیس کو لے کر چلوں گا تاکہ انصاف ہو اور ہمارے خاندان کی زمین ہمیں واپس ملے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ میں انصاف کے لیے بہت زیادہ پرامید نہیں ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسے مقدمات کئی نسلیں چلتے ہیں اس کے باوجود میں کوشش کروں گا کہ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تگ و دو کرتا رہوں۔‘
اس کیس میں سبحان الدین کے وکیل سبحان اللہ ایڈووکیٹ ہیں۔ اردو نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیس تو پھر بھی بارہ سال پرانا ہے۔
’سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات بھی موجود ہیں جو ساٹھ ساٹھ سال سے زیر التوا ہیں۔ اس کیس میں خاص بات صرف یہ ہے کہ اس کو سماعت کے لیے مقرر ہونے میں 12 سال لگ گئے۔ یہ تو شکر ہے کہ ہمیں نوٹس مل گیا۔ مخالف فریق کو تو نوٹس بھی نہیں ملے۔ اب ہم عدالت میں حمدان کیلاش کے قانونی ورثا کی فہرست پیش کریں گے اور ان کو نوٹس کروائیں گے تاکہ یہ معاملہ آگے بڑھ سکے۔‘

شیئر: