Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حد

آج سے10 سال قبل لڑکی یا لڑکے کی شادی کرنی ہوتی تو مشاطہ سے رابطہ کیاجاتا، محلے میں کسی ”خالہ“ کی سماجت کی جاتی یا کسی شادی دفتر کے چکر لگائے جاتے تب جا کر معاملہ طے پاتا
شہزاد اعظم
قبل از بچپن سے ہی ہماری فطرتِ اولیٰ اور فطرتِ ثانیہ رہی ہے کہ ہم ”حد“ کو” بے حد“ پسند کرتے ہیں۔ خواہ وہ اعمالِ ذہنی ہوں، اعمالِ قلبی ہوں یا اعمالِ جسمانی ، ہم ’ ’حد“کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ہمیں اپنی ’ ’حد“ میں رہنا یعنی ’ ’حد“ میں رہائش بھی دل و جان سے عزیز ہے۔ ہم نے زندگی میں کوئی حد پار نہیں کی حتیٰ کہ کسی کو پسند بھی کیا تو ’ ’حد“ میں رہ کر ہی کیا۔ کبھی ہم ’ ’حد“سے آگے گئے ، نہ ”حد“سے زیادہ کی جانب مائل ہوئے یہی وجہ ہے کہ ہمیں ’ ’حد“سے تجاوز کرنے والے پسند ہیں اور نہ ہی ’ ’حد“سے آگے کی ”تجاوزات“، مگر کیا کریں کہ دورِ حاضر میں ٹیکنالوجی ’ ’حد“سے تجاوز کر چکی ہے ۔ کسی زمانے میں ٹیکنالوجی صرف ”نامعقولات“ میں دخل اندازی کیاکرتی تھی مگر اس کی جرا¿ت نہیں ہوتی تھی کہ یہ ”دخل درمعقولات“ کا ارتکاب کرے۔ہم یہاں ”نامعقولات“ اور ”معقولات“ کی مثال پیش کرنا لازمی سمجھتے ہیں تو عرض ہے کہ ہم نے جب اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا تو فوراً گھر کا دروازہ کھول کر گلی میں نکل گئے ۔ وہاں ایک آنے کے عوض اُس دور کی حیرت انگیز ٹیکنالوجی”چلتا پھرتا سینما“ سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا جا رہا تھا۔یہ ٹیکنالوجی 3ٹانگوں والی ایسی سنگھار میز پر مبنی تھی جس میں آئینے کی جگہ نیم دائروی شکل میں تصاویر چسپاں تھیں اور ان میںدو جگہوں پر ٹریفک کے اشاروں جیسے گول شیشے نصب تھے۔ ہم نے اُس ”ٹیکنالوجسٹ“ کو ایک آنہ دیا، اُس نے ہمیں ایک گول شیشے کے سامنے لا کھڑا کیا اور کہنے لگا کہ دونوں ہاتھوںسے چہرے کو چھپا کر اس شیشے کے اندر جھانکو۔ ہم نے شیشے کے اندر جھانکنا شروع کیااور ساتھ ہی اس” ٹیکنالوجسٹ“نے رواں تبصرہ شروع کر دیا کہ” دیکھو دیکھنے والو یہ وھیل مچھلی دیکھو“اس کے ساتھ ہی ہمیں سمندر میں ڈبکی لگاتی وھیل مچھلی کی رنگین تصویر دکھائی دی۔ پھر آواز آئی کہ ”دیکھو دیکھنے والو12من کی دھوبن دیکھو“ یہ کہتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ا نتہائی فربہ دھوبن کی تصویر نمایاں ہوئی جو اپنے گھر کے صحن میں گاﺅ تکیے پر کہنی ٹکائے نیم دراز تھی۔ یہ” غسالہ“ 12بچوں کی والدہ تھی۔ اسی طرح ایک دو تصاویر اور دکھانے کے بعد ”ٹیکنالوجسٹ“ نے اس سنگھار میز کی ایک ٹانگ پر3 مرتبہ لکڑی کا ڈنڈا مارا اور کہا کہ ”چلو بچے! شو ختم ہو گیا۔“یہ ”چلتا پھرتاسینما“ ٹیکنالوجی کے زیر عنوان ہماری زندگی میں ”دخل در غیر معقولات“کا اولیں ذمہ دار تھا ۔ بعد ازاں ہمارے بلوغ تک پہنچتے پہنچتے ”دخل در غیر معقولات“ کی کئی ایک مثالیں ہمارے معمولات کا حصہ بن چکی تھیں۔ اب پیش ہے ٹیکنالوجی کے نام پر ”دخل در معقولات“کی اےک مثال:
آج سے10 سال قبل تک صورتحال یہ تھی کہ لڑکی یا لڑکے کی شادی کرنی ہوتی تو مشاطہ سے رابطہ کیاجاتا، محلے میں کسی ”خالہ“ کی سماجت کی جاتی یا کسی شادی دفتر کے چکر لگائے جاتے تب جا کر کہیں معاملہ طے پاتاتھا۔اُس دور میں ہمارے معاشرے میں بھی دو قسم کی دلہنیں پائی جاتی تھیں۔ ایک وہ جو امیر ، متمول، دولت مند والدین کی اولاد ہوتی تھی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ وہ فلاں کی ”صاحبزادی“ہے ۔ دوسری وہ جو غریب اماں ابا کے ہاں پیدا ہوتی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ وہ فلاں کی لڑکی ہے ۔اسے زمین پر بوجھ بھی سمجھا جاتا تھا۔ امیر والدین شادی کے روزاپنی صاحبزادی کا ہاتھ اپنے داماد کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تیوری پر بل ڈال کر دلہن کو مخاطب کر کے فرماتے کہ ”بیٹی ! یہ تمہارے پاپا کا گھر ہے، سسرال میں تمہیں کسی قسم کی تکلیف ہو یا تم وہاں ”ایڈجسٹ“ نہ کر پاﺅ تو ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر سب کچھ چھوڑ کر چلی آنااور دل نہ مانے تو خلع کے لئے پٹیشن فائل کر دینا، باقی میں خود دیکھ لوں گا۔بیٹی! میں داماد کو ایک ایسے 5حرفی لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جسے اُلٹا لکھیں یا سیدھا ”دام اد“ ہی رہتا ہے۔یہ سن کر دامادکی سٹی گم ہو جاتی تھی۔ دوسری جانب غریب والدین اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر تشکرانہ مسکراہٹ لئے ہوئے کہتے کہ ”دیکھو بیٹی! آج کے بعد سے تمہارے باپ کے گھر کے دروازے تم پر ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے۔ اب تمہارا اصل ٹھکانہ تمہارے شوہر کا گھر ہے ۔ وہاں شوہر کی اور سسرال والوں کی خدمت کرنا، ان کے دل جیتنے کی کوشش کرنا، آج جہاں تمہاری ڈولی جا رہی ہے ، یاد رکھنا ، وہاں سے تمہارا جنازہ ہی نکلنا چاہئے۔یہ سن کر داماد کا سینہ تن جاتا اور وہ اپنی مونچھوں کو تاﺅ دیتا دکھائی دیتا۔یہ تمام مناظرآج سے دہائی، 2دہائی قبل کے تھے ، آج ٹیکنالوجی نے ”دخل در معقولات“ کی ’ ’حد“ کر دی ہے ۔ اس لئے لمحہ¿ موجود کے مناظر بالکل بدل چکے ہیں۔ موبائل فون نے تو ’ ’حد“ کر دی ہے ۔آج کسی لڑکا لڑکی کو میاں بیوی کے طور پرہم قدم ہونے کے لئے کسی مشاطہ وشاطہ کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ان بے چاریوںکی آمدنی صفر کر دی ہے۔ آج شادی کے ارادے کے بعد لڑکی ہو یا لڑکا، پہلے فون پر محوِ گفتگو ہوتے ہیں پھر جب معاملات پسندیدگی کی بھول بھلیوں میں داخل ہوجائیں تو وڈیو کیمرے پر دوبدو ہوتے ہیں۔اگراس ”اِن کیمرا“مڈبھیڑکے باعث پسندیدگی کا بھوت کہیں فرار ہوجائے تو ”آئندہ مجھے کال مت کرنا“ کہہ کر فریقِ ثانی سے پیچھا چھڑا لیاجاتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر ”اِن کیمرا“ملاقات سے پسندیدگی کا رنگ مزید گہرا ہوجائے تو فریقین میں سے عموماً نسوانی جانب سے مطالبہ ہوتا ہے کہ آپ میرے والدین سے ملاقات کے لئے آئیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے خون کے تازہ ترین طبی امتحان کی تفصیلی رپورٹ ساتھ لے کر آئیںاورخون کا یہ معائنہ بھی اُس ”معمل“ یعنی لیباریٹری سے کروایاجائے گا جہاں سے میں کہوں گی تاکہ یہ یقین کیاجا سکے کہ آپ ”ہیپاٹائٹس سی“ یا ایسی کسی خوفناک بیماری کا شکار نہیں اور شادی کے بعد بھی آپ کے زندہ اور صحت مند رہنے کے طبی شواہد موجود ہیں۔لڑکا بے چارا مجبور ہو کر لڑکی کی بتائی ہوئی لیباریٹری سے خون ٹیسٹ کرواتا ہے اور پھر رپورٹ آنے کا انتظار کرتا ہے۔ رپورٹ ہاتھ آتے ہی وہ اسے فوری طور پر اپنی ممکنہ بیوی کو ”واٹس ایپ“ پر ارسال کر دیتا ہے ۔اگر رپورٹ میں گڑ بڑ ہو تولڑکی اسے ایس ایم ایس کر دیتی ہے کہ ”بائے فار ایور، آئندہ کال کی ناں تو میرے سے بُرا ایک اور ہوگا جس کا نام ہے میرے ڈیڈ“ اور اگر رپورٹ درست ہو تو لڑکی کہتی ہے کہ کل اپنی اس اوریجنل رپورٹ کے ساتھ اپنی اماں یا باوا کو لے کر آجاﺅ اور میرے ڈیڈ سے میرا رشتہ مانگ لو۔ وہ مجھ سے پوچھیں گے تو میں ”او کے“ کر دوں گی۔
ہم نے اپنے جگری دوست کو بھی معاشرے کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی نے دخل در معقولات کی بھی ’ ’حد“کر دی ہے ۔ لڑکی کی جانب سے طبی رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ درحقیقت دولہا کے لئے ایک طرح کا” احتساب “ہے جو شادی سے پہلے ہی کیا جانے لگا ہے ۔یہ سن کر ہمارے دوست نے کہا کہ صرف دولہا نہیں بلکہ یہ رپورٹ تو شادی کے بعد اس جوڑے کے ہاں آنے والے ”مہمان“ کا بھی” قبل از پیدائش احتساب “ہے۔پتا ہے ہمارے وطن میں آجکل ”قبل از پیدائش احتساب“ کی لہر چل نکلی ہے ، دعا کرو کہ سب خیر رہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: