Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی فروخت میں ایمنسٹی سکیم کا جھانسہ، لاکھوں کا نقصان

گاڑی کے ڈیلر نے حماد کو بتایا کہ حکومت جلد ہی ایک ایمنسٹی سکیم متعارف کرانے والی ہے(فوٹو: پاک وہیل)
پاکستان میں حالیہ دنوں میں نان کسٹم پیڈ (این سی پی) گاڑیوں کی فروخت میں ایمنسٹی سکیم کے جھانسے نے کئی شہریوں کو بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے۔
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ایک رہائشی حماد علی (فرضی نام) نے ایمنسٹی سکیم کے جھانسے میں آکر 10 لاکھ روپے میں ایک جاپانی ہائیبرڈ گاڑی خریدنے کا معاہدہ کیا۔ گاڑی کے ڈیلر نے حماد کو بتایا کہ حکومت جلد ہی ایک ایمنسٹی سکیم متعارف کرانے والی ہے، جس کے تحت نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ڈیوٹی ادا کر کے قانونی حیثیت دی جا سکتی ہے۔
حماد علی نے اس سکیم کی بنیاد پر گاڑی بک کرانے کے لیے تین لاکھ روپے بطور ایڈوانس ڈیلر کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے۔ تاہم ایف بی آر کے ترجمان کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے تردید کے بعد حماد نے گاڑی لینے سے انکار کر دیا اور ڈیلر سے رابطے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا۔
حماد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں نے ایف بی آر کے ترجمان کا بیان سنا کہ ایسی کوئی سکیم زیر غور نہیں ہے، تو میں نے فوراً ڈیلر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا فون بند ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کیا میں پولیس میں رپورٹ درج کراؤں یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ پیسوں کی واپسی کے معاملے میں خود ہی نہ کسی قانونی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑے۔‘
گاڑی کیسے خریدی؟
حماد علی نے بتایا کہ انہیں اپنے گھر کے استعمال کے لیے ایک ہائیبرڈ گاڑی کی تلاش تھی۔ حماد کئی دنوں سے اخبارات کے اشتہارات اور مقامی مارکیٹ میں گاڑی کی تلاش کر رہے تھے۔ کچھ گاڑیاں سمجھ آئیں لیکن قیمت اتنی زیادہ تھی کہ ان گاڑیوں کی خریداری حماد کے لیے ممکن نہیں تھی۔
پھر ایک روز حماد کے ایک دوست نے اسے بتایا کہ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت ایک بار پھر ایمنسٹی سکیم متعارف کرانے جارہی ہے، اگر یہ سکیم آجاتی ہے تو اس سکیم کے تحت سستے داموں خریدی گئی نان کسٹم پیڈ گاڑی کو ڈیوٹی ادا کرکے قانون کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔
حماد نے اپنے دوست کے این سی پی گاڑی کی خریداری کے مشورے کو نظر انداز کیا اور اشتہارات کے ذریعے ہی گاڑی کی تلاش کو جاری رکھا، کچھ دنوں بعد حماد نے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جہاں ایکوا گاڑی کا اشتہار دیا گیا تھا، گاڑی بیچنے والے نے گاڑی کی مکمل تفصیلات اور تصاویر پوسٹ میں شیئر کی تھی، اور گاڑی کی قیمت 15 لاکھ روپے بتائی گئی تھی۔
’40 لاکھ روپے کی گاڑی کی قیمت 15 لاکھ روپے دیکھ کر حیرانی ہوئی، پوسٹ کو مکمل پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ گاڑی نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے۔‘
حماد نے بتایا کہ پوسٹ پر دیے گئے نمبر پر واٹس ایپ پر بات ہوئی اور ڈیلر نے بتایا کہ کچھ دنوں میں حکومت کی سکیم آرہی ہے جس کے بعد گاڑی کو رجسٹر کرایا جاسکتا ہے۔

ایف بی آر نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی غیر تصدیق شدہ معلومات پر یقین نہ کریں (فوٹو: اے ایف پی)

’ڈیلر نے جس اعتماد سے تمام تر تفصیلات بیان کیں اس سے ایسا اندازہ ہوا کہ ایک سے دو ماہ میں یہ سکیم آجائے گی اور ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد یہ گاڑی 25 لاکھ روپے میں مل جائے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ڈیلر سے 10 لاکھ روپے میں گاڑی کا سودا ہوا، ڈیلر سے یہ بات طے کی کہ گاڑی کو بک کرلیا جائے اور سکیم کے متعارف ہوتے ہی گاڑی کی ڈیوٹی ادا کرکے گاڑی انہیں دے دی جائے۔ ایڈوانس کے طور تین لاکھ روپے ڈیلر کے بتائے گئے اکاؤنٹ میں ٹرانفسر کر دیے۔
کراچی میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے افراد سوشل میڈیا پر مختلف اشتہارات اور جعلی معلومات کے ذریعے شہریوں کو پھنساتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے کہ ملک میں سمگل شدہ گاڑیوں کے لیے کوئی ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی جا رہی ہے۔
ترجمان ایف بی آر کی وضاحت
ایف بی آر کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ’فی الحال وفاقی حکومت ایسی کسی سکیم پر غور نہیں کر رہی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں بے بنیاد ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے پھیلائی گئی ہیں۔‘
ایف بی آر نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی غیر تصدیق شدہ معلومات پر یقین نہ کریں۔

کئی شہریوں کو جعلی کاغذات اور نمبر پلیٹس کے ساتھ این سی پی گاڑیاں فروخت کی گئی ہیں (فوٹو: اے یف پی)

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے جھانسے میں شہریوں کو نقصان پہنچایا گیا ہو۔ کئی شہریوں کو جعلی کاغذات اور نمبر پلیٹس کے ساتھ این سی پی گاڑیاں فروخت کی گئی ہیں، جو بعد میں قانونی پیچیدگیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم بار بار شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ گاڑیوں کی خریداری کرتے وقت قیمت کے فرق کو مدنظر رکھیں۔ مارکیٹ ریٹ سے 5 سے 7 لاکھ روپے کم قیمت پر ملنے والی گاڑی عموماً کسی نہ کسی مسئلے کا اشارہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود لوگ اچھا سودا سمجھ کر ان جعل سازوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں، جس سے انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غیر قانونی گاڑیوں کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، تاکہ شہریوں کو اس قسم کے دھوکے سے بچایا جا سکے۔

شیئر: