Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انٹراکورٹ اپیلیں منظور، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں

نیب ترامیم کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے اپنے فیصلے کو انٹراکورٹ اپیلوں میں ختم کر دیا ہے۔
جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر انٹراکورٹ اپیلوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
ستمبر 2023 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔
اب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ فیصلہ درست نہیں تھا اور کالعدم قرار دی گئی نیب ترامیم بحال کی جا رہی ہیں۔ 
فیصلے میں کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر کا کردارادا نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس اور ججز پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ کو جب بھی ممکن ہوقانون سازی کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، عمران خان نیب ترامیم کو آئین سے متصادم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔‘
فیصلے سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹس تحریر کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ متفقہ ہے تاہم جسٹس اطہر من اللہ نے عام فریقوں کی اپیل پر ترامیم بحال کیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹراکورٹ اپیل دائر کرے۔
اپنے اضافی نوٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔
رواں سال چھ جون کو نیب آرڈیننس میں ترامیم سے متعلق وفاق اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں 15 ستمبر 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے پارلیمنٹ سے منظور کی جانے والی ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔
نیب قوانین میں کون سی ترامیم کی گئی؟
مئی 2022 میں ومی اسمبلی کے اجلاس میں چیئرمین نیب کی تقرری اور نیب کے دائرہ اختیار سمیت متعدد ترامیم منظور کی گئی۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر 
بل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں جبکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
چیئرمین نیب کے تقرر کا طریقہ کار 
 چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے۔ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینیئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج دیا جا سکے گا۔ 
بل کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کی مدت کے لیے ہوگی جبکہ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔
نیب عدالتیں ایک سال میں فیصلہ سنانے کی پابند  
منظور کردہ بل کے مطابق احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کرنے کی پابند ہوں گی۔ نئے قانون کے تحت نیب انکوائری کی مدت کا تعین بھی کر دیا گییا ہے جس کے مطابق نیب  6 ماہ کے حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا۔ گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب عدالت میں پیش کرنے پابند ہوگا جبکہ کیس کے دائر ساتھ  گرفتاری نہیں ہوسکتی۔ 
0 کروڑ روپے تک کی بدعنوانی کا معاملہ نیب کو بھیجا جائے گا
نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم میں سب سے اہم یہ ترمیم تھی کہ 50 کروڑ روپے تک کی بدعنوانی کا معاملہ نیب کو بھیجا جائے گا جبکہ اس سے کم بدعنوانی کے معاملات ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کا محکمہ دیکھے گا۔
ترامیم سے فائدہ کس کس کو ہوا؟

جن سیاست دانوں کو ان ترامیم سے فائدہ ہوا ان میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، چودھری شجاعت حسین، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، پرویزاشرف، شوکت عزیز اور شہباز شریف شامل تھے۔
سابق وزرائے اعلیٰ چودھری پرویزالہٰی، عثمان بزدار، حمزہ شہباز، اسلم رئیسانی، قدوس بزنجو، پرویزخٹک، محمودخان، قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، منظور وٹو، حیدر ہوتی، لشکری رئیسانی، مالک بلوچ اور ثنااللہ زہری بھی نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔
سابق وفاقی وزرا میں شوکت ترین، اسحاق ڈار، سردار مہتاب، فرزانہ راجا، سلیم مانڈوی والا، خواجہ آصف، خسرو بختیار، سعد رفیق، حنا ربانی کھر اور دیگر شامل ہیں۔
 

شیئر: