’فلاں صابن 100 فیصد جراثیم کا خاتمہ کر دیتا ہے‘، ’فلاں آئس کریم سب سے لذیذ‘ یا پھر ’فلاں پینٹ کے ڈبے میں ڈسکاؤنٹ ٹوکن موجود ہے۔‘
آپ نے اپنی ٹی وی سکرینز پر اس طرح کے اشتہارات ضرور دیکھے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پروڈکٹ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہو۔
لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ اوپر دیے گئے اشتہارات میں سے کوئی بھی 100 فیصد درست نہیں ہے۔
حالیہ عرصے کے دوران مسابقتی کمیشن نے ایسے گمراہ کن اشتہارات چلانے پر کئی کمپنیوں پر کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کیے ہیں۔
مزید پڑھیں
اس صورت حال میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں جھوٹے یا گمراہ کن اشتہارات چلانے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کیسے کی جاتی ہے؟
مسابقتی کمیشن آف پاکستان کا کردار
ان کارروائیوں کے لیے پہلا نام مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کا آتا ہے جو ایک خودمختار ریگولیٹری ادارہ ہے۔
اس ادارے کا بنیادی مقصد ملک میں صحت مند مسابقت کو فروغ دینا اور ایسی تمام سرگرمیوں کی نگرانی کرنا ہے جو صارفین، کاروبار یا مارکیٹ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
اس موضوع پر مزید جاننے کے لیے اردو نیوز نے مسابقتی کمیشن کے ترجمان ساجد گوندل سے رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’سی سی پی کی ویب سائٹ پر شکایت درج کرنے کے لیے پورٹل موجود ہے، جہاں صارفین اپنی شکایات جمع کروا سکتے ہیں۔ تاہم جب کوئی معاملہ عوامی مفاد سے متعلق ہو، تو کمیشن خود (سو موٹو) نوٹس لیتا ہے۔‘

ساجد گوندل کے مطابق پہلے قانون مختلف تھا اور شکایت کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی تھی لیکن کمپنیاں اکثر شکایت کنندگان پر دباؤ ڈال کر یا انہیں لالچ دے کر شکایت واپس لینے پر آمادہ کر لیتی تھیں۔
اسی وجہ سے سنہ 2016 میں قانون میں ترمیم کی گئی جس کے بعد کمیشن اب شکایت کنندہ کے پیچھے ہٹنے پر بھی کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔
حالیہ کارروائیاں
ساجد گوندل نے مزید بتایا گمراہ کن اشتہارات چلانے پر مسابقتی کمیشن نے ڈیٹول صابن بنانے والی کمپنی پر ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ کیا ہے۔ یہ کمپنی اپنے اشتہار میں 100 فیصد جراثیم کے خاتمے کا دعویٰ ثابت نہ کر سکی۔
اسی طرح اومور اور والز آئس کریم کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ وہ اپنی مصنوعات کو ’آئس کریم‘ کے طور پر بیچ رہے تھے جبکہ وہ دراصل ’فروزن ڈیزرٹ‘ تھیں جن میں ڈیری پروڈکٹس شامل نہیں تھے۔
ٹوکن پینٹ کی کمپنی پر بھی گمراہ کن دعوے کرنے پر کارروائی کی گئی۔ اس جیسے مزید کیسز میں کچھ کمپنیوں کو جرمانے جبکہ کچھ کو وارننگز دی گئی ہیں۔
اُنہوں نے اپنی گفتگو کے دوران مزید بتایا کہ مختلف دکانوں اور برانڈز کی جانب سے سیلز پروموشنز کا بھی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
’عید اور نیوایئر پر کئی برانڈز ’اپ ٹو 50 فیصد‘ سیل کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں صرف چند غیرمتعلقہ اشیاء پر رعایت ہوتی ہے۔ کمیشن نے ہدایت جاری کی ہے کہ سیلز آفرز میں مکمل شفافیت ہونی چاہیے۔‘

ساجد گوندل نے ہنڈائی کمپنی کے کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ نئی گاڑی کی لانچ پر محدود وقت کے لیے ڈسکاؤنٹ دیا گیا لیکن صارفین کو مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ صارفین نے درخواستیں جمع کرائیں، بینک سے کمٹمنٹ لی اور بعد میں بتایا گیا کہ رعایت ختم ہو چکی ہے۔
ساجد گوندل نے واضح کیا کہ اب اصول یہ ہے کہ شکایت تو درج کی جا سکتی ہے لیکن فیصلہ کمیشن خود کرتا ہے۔ ایک بار کمیشن ایکشن لے لے تو پھر وہ اس کے دائرہ اختیار میں آ جاتا ہے۔ پھر کمپنی شکایت کنندہ سے رابطہ کر سکتی ہے اور نہ ہی شکایت واپس لی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں صارفین کے قانونی حقوق اور راستے
ایڈووکیٹ خرم ابراہیم بیگ جو کارپوریٹ وکیل ہیں اور مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
اُنہوں نے رابطہ کرنے پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسی صورتحال میں صارف کے پاس دو قانونی راستے ہوتے ہیں۔ ایک مسابقی کمیشن یا کنزیومر کورٹ سے رجوع اور دوسرا پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی پروڈکٹ خریدنے کے بعد اپنی وارنٹی پر پوری نہیں اترتی تو صارف عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد اور پنجاب میں اس کے لیے الگ قوانین موجود ہیں۔‘
خرم ابراہیم کے مطابق اگر کسی کمپنی نے سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلائی ہو جو حقیقت سے مختلف ہو تو یہ فوجداری جرم ہے۔ اس پر پیکا ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ’پاکستان میں صارف کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین اور ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کے سست اور پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے شہری اکثر ان سے رجوع نہیں کرتے۔‘
‘اس تناظر میں صارف کو سب سے زیادہ ضرورت آگاہی کی ہے۔ اگر وہ کسی کمپنی سے دھوکہ کھائے، تو اس کے پاس مکمل قانونی تحفظ موجود ہے، مگر لاعلمی کی وجہ سے لوگ یہ قدم نہیں اٹھاتے۔‘