ایک ایسے دور میں جہاں ٹیکنالوجی اور روایات تیزی سے بدل رہی ہیں، وہاں ایسے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ہنر سے والہانہ وابستگی اور ثابت قدمی مگر خاموشی کے ساتھ قوتِ تخلیق کے اظہار کی شاندار علامت اور مثال ہیں۔
ایسے لوگوں میں ایک ریٹائرڈ استاد خالد الزھرانی بھی ہیں جنھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کو تکمیلِ خواہش کے سفر میں تبدیل کر دیا اور ایک ایسے خواب کی تعبیر بننے میں لگ گئے جو کالج کے دنوں سے ان کی آنکھوں میں بسا ہوا تھا۔ اور یہ خواب تھا پورے قرآنِ پاک کو اپنے ہاتھوں سے لکھنا۔
مزید پڑھیں
-
’مسجد نبوی کی لوحیں نصب کرتے آنسو چھلک پڑے‘Node ID: 423916
-
مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں خوبصورت عربی خطاطی کے شاہکارNode ID: 821086
-
مسجد الحرام میں عربی خطاطی کے شاہکار، تعمیراتی حسن میں اضافہNode ID: 883195
60 سالہ الزھرانی کو عربی خطاطی سے عمر بھر لگاؤ رہا ہے۔ وہ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے سے ہی قرآنِ پاک کو ہاتھوں سے لکھنا چاہتے تھے مگر کام کی مصروفیات اور روز مرہ کے معمولات کی وجہ سے انھیں اپنی خواہش کو آگے بڑھانا پڑا تاوقیتکہ ان کی ریٹائرمنٹ کا دن آ گیا۔ اور یوں انھیں اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا موقع مل گیا۔
الزھرانی نے بتایا کہ ’خواب کا یہ سفر اس وقت شروع ہوا جب ایک دوست نے ہاتھ سے قرآنِ پاک لکھنے کے انیشی ایٹیو کے بارے میں بتایا۔ اس منصوبے میں شرکا کو غیر تحریر یا غیر شائع شدہ قرآن پاک فراہم کیا جاتا ہے جسے وہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔‘
الزھرانی نے قرآنِ پاک کے ایسے دو نسخے خرید لیے اور اپنے سفر پر چل پڑے۔
انھوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ تجربہ کافی محنت طلب تھا۔ اس میں انکساری اور عاجزی کے پہلو بھی تھے۔ ان کے کام میں غلطی کی گنجائش انتہائی کم اور توجہ کی ضرورت انتہائی زیادہ تھی۔‘
وہ روزانہ دو سے ڈھائی صفحات نقل کیا کرتے جس میں انھیں حروف کی گنتی کرنا پڑتی تاکہ لکھائی کی وضع متوازن رہے اور کوئی آیت یا آیت کا حصہ باقی نہ رہ جائے۔
الزھرانی نے اپنے کام کا آغاز ’سورۂ الزللزال‘ سے کیا تاکہ وہ اپنی صلاحتیوں کا امتحان لے سکیں۔ جب یہ کام مکمل ہو گیا تو انھیں کچھ اعتماد ملا اور آگے بڑھنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ تاہم ’سورۂ البقرہ‘ لکھتے ہوئے ان پر اس سورے کی ہیبت و جلالت اور عظمت حاوی رہی۔
انھوں نے اس کام کے لیے آدھے ملی میٹر والا پین اور انتہائی باریک سوئی استعمال کی تاکہ اگر کچھ درست کرنا ہو تو آسانی سے ہو سکے۔

الزھرانی کو خِود کو اس کام کے لیے وقف کرنا پڑا، چنانچہ انھوں نے چھ ماہ کا ایک شیڈول مرتب کیا جس کے دوران وہ ہر طرح کی توجہ ہٹانے والی باتوں اور لوگوں سے ملنے ملانے سے بچنے کے لیے گھر میں رہے۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ انھیں ایسے حالات میسر آ جائیں جن میں وہ بھرپور توجہ سے اپنا کام کر سکیں۔
انہوں نے اپنے کام کوعوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھا لیکن ایک دن ان کے ایک رشتے دار نے اس وقت ان کو متحرک تصویروں میں قید کر لیا جب وہ تحریر میں مصروف تھے۔
رشتے دار نے یہ ویڈیو خاندان کے واٹس ایپ گروپ میں شیئر کر دی جو فورً وائرل ہوگئی اور انھیں اس کام پر زبردست پذیرائی اور توجہ ملی۔
الزھرانی کو میڈیا والوں نے کئی بار انٹرویو کی درخواست کی لیکن مشن مکمل ہونے تک وہ اسے التوا میں ڈالتے رہے کیونکہ اس کام میں انھیں بہت زیادہ فوکس کی ضرروت تھی۔
انھوں نے بتایا کہ’ یہ ایک روحانی سفر تھا جس میں انھیں قرآنی آیات پر بہت غور کرنا تھا اور ان کے معانی سمجھنے تھے۔ انھیں یہ لگتا تھا جیسے وہ حروف کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئے ہیں۔‘
الزھرانی کےمطابق’ اس تجرے سے ان کا قرآن کے ساتھ ربط مضبوط ہوا ہے اور اس کے پیغام سے ان کا تعلق گہرا ہوگیا ہے۔ ان میں ذمہ داری کا احساس بہت زیادہ بڑھ گیا ہے خصوصاً ان لفظوں کے تقدس کی ذمہ داری کا احساس جنھیں انھوں نے نقل کیا ہے۔‘
انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان کا کام نوجوانوں کو عربی خطاطی سے جوڑنے کی ترغیب دے گا لیکن یہ جمالیاتی تجربے کے بجائے قرآنِ پاک کی حرمت کو برقرار رکھنے اوراس کی جانب رغبت دلانے والا ایک احساس ہوگا۔
الزھرانی کہتے ہیں کہ’ انھوں نے اپنے تجربے سے بہت عمیق سبق سیکھے ہیں جن میں صبر اور ثابت قدمی شامل ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کا انتہائی معنی خیز باب ہے۔‘
الزھرانی نے امید ظاہر کی کہ ان کی کہانی دوسروں کو برسوں سے دیکھے ہوئے خوابوں کو تعبیر دینے کی ترغیب فراہم کرے گی۔ ان کی کہانی ایسے افراد کو پہلا قدم اٹھانے پر مائل کرے گی، خواہ اس کام میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوچکی ہو۔ یہ ایسے افراد کو یاد دلائے گی کہ اگر ارادے میں خلوص ہو تو خواب حقیقت بن جایا کرتے ہیں۔